راجا کاشان واقعہ — ڈیجیٹل میڈیا کا امتحان | تحریر عظمیٰ اختر لون

راجا کاشان واقعہ — ڈیجیٹل میڈیا کا امتحان

تحریر عظمیٰ اختر لون

گزشتہ چند دنوں سے گلگت کے اندر ایک خبر بہت تیزی سے گردش کر رہی ہے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگ، چاہے اساتذہ ہوں یا ڈاکٹرز، بڑے چھوٹے، مرد و زن، سب اپنا فرضِ اوّل یہ سمجھتے ہیں کہ مذمت کے نام پر ایسی منفی خبروں کو سوشل فورمز میں بلا سوچے سمجھے نہ صرف پھیلاتے ہیں بلکہ ہر شخص اس پر تبصرہ بھی کر رہا ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر اپنی زبان و بلاغت کا ڈھیر لگانے یا پلے کارڈ بنا کر اتنے بڑے حادثے کو محض کانٹنٹ بنانا ہی ہمارا فرض ہے؟ کیا بحیثیت معاشرہ ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟


آئیے اپنے بچوں کو بحیثیت اساتذہ، والدین اور اس معاشرے کے بنیادی فرد یہ سکھائیں کہ انٹرنیٹ کو محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں "ڈیجیٹل شہریت" (Digital Citizenship) کا تصور سامنے آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کو ذمہ داری، اخلاق، احترام اور قانون کے دائرے میں رہ کر استعمال کریں۔


ڈیجیٹل شہریت کیا ہے؟

ڈیجیٹل شہریت ایک ایسا رویہ ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد آن لائن دنیا میں کس طرح برتاؤ کرتا ہے۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کے استعمال کا نام نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ جیسے ایک اچھا شہری قانون، تہذیب اور اخلاق کا پابند ہوتا ہے، ویسے ہی ایک اچھا ڈیجیٹل شہری بھی ان اصولوں کی پیروی کرتا ہے۔


ڈیجیٹل شہریت کے اہم خصائل و آداب:

 احترام (Respect) .1

دوسروں کی رائے، تصاویر، نجی معلومات اور جذبات کا خیال رکھنا۔ آن لائن بدتمیزی، طنز، نفرت یا بلیک میلنگ جیسے رویوں سے اجتناب کرنا۔

 ذمہ داری (Responsibility) .2

جو معلومات شیئر کی جا رہی ہیں ان کی صداقت، حقانیت اور اثرات کو سمجھنا۔ جھوٹی خبریں یا افواہیں پھیلانا سخت غیر ذمہ داری ہے۔

 سلامتی (Safety) .3

اپنی اور دوسروں کی سوشل میڈیا پر سلامتی یقینی بنانا۔


ماں، استاد اور سول سوسائٹی کا کردار

جدید دور علم، ٹیکنالوجی اور تیز رفتار زندگی کا دور ہے۔ ترقی کی دوڑ میں اخلاق، کردار اور سماجی اقدار کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے تین بنیادی کردار نہایت اہم ہیں:


1. ماں — پہلی درسگاہ:

ماں بچے کی پہلی استاد ہے۔ اس کی گود میں محبت، تربیت، تہذیب، دین اور زبان کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ جدید چیلنجز جیسے اسکرین ٹائم، اخلاقی بے راہ روی اور مادّی دوڑ کے مقابلے میں ماں کا کردار پہلے سے زیادہ باشعور ہونا چاہیے۔

2. استاد — رہبرِ قوم:

استاد صرف نصاب پڑھانے والا نہیں، بلکہ کردار ساز اور رہنما ہوتا ہے۔ وہ طلبہ کو تنقیدی سوچ، اخلاقی شعور اور معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ سوشل میڈیا اور فیک نیوز کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔

3. سول سوسائٹی — ضمیرِ قوم:

سول سوسائٹی میں عام شہری، تنظیمیں، میڈیا اور کمیونٹیز شامل ہیں۔ ان کا کردار صرف احتجاج یا تقریر تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، صحت، انصاف اور اقدار کے فروغ میں عملی شراکت ہے۔


راجا کاشان واقعہ — میڈیا کا امتحان

راجا کاشان کا قتل صرف ایک جرم نہیں بلکہ انسانیت اور اخلاقیات کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایسے واقعات کو محض سنسنی خیز خبریں بنا کر پیش کرنا معاشرتی بے حسی کی علامت ہے۔


غیر مصدقہ معلومات کی اشاعت:

بغیر تحقیق کے خبریں پھیلانا سچ کو مسخ کرتا ہے۔


نفسیاتی دباؤ:

متاثرہ خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات ڈالنا۔


نتیجہ:

اگر ماں، استاد اور سول سوسائٹی اپنے اپنے کردار کو خلوص اور بصیرت سے نبھائیں تو ہم موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن اور پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔


اشعار:

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے،

سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے،

تو وہ حملہ نہیں کرتا،

شکاری کی ضرورت ہی نہیں رہتی،

درندے بھی تو آخر درندہ صفت نہیں ہوتے۔


سنا ہے جنگلوں میں کچھ چراغاں سا رہتا ہے،

درختوں کی طنابوں میں جگنو چراغوں کی طرح،

ہوا میں جھولتے ہیں،

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔


سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں،

ببول کا کوئی پیڑ گر جائے،

تو ندی چپ چاپ اسے اوڑھ لیتی ہے،

سنا ہے بولنے والوں کو

چپ رہنے کا بھی فن آتا ہے۔


دعا:

اے خدائے لم یزل، خالقِ کائنات، قادرِ مطلق!

میرے اس شہر میں بھی جنگلوں کا کوئی قانون نافذ کر دے۔

Post a Comment

0 Comments