پشتینی باشندگانِ گلگت اور شاہراہِ دارَیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر:اشتیاق احمد
معاملہ یہ ہے کہ میرا اپنا خونی خاندانی تعلق گلگت شہر کے پشتینی (مٹھولپآ) باشندگانِ اَمپھَری کے یَشکُن آزاد قباٸل سے ہے۔ آج سے تین صدیاں قبل میرے خاندان کے دو بزرگوں نے گلہ بانی کیلیے زیادہ سرماٸی اراضی حاصل کرنے کی غرض سے گلگت شہر سے مغرب کی طرف ٣٠ کلو میٹر دور ”چار کوٹ/وارپار“ کے علاقے کا رخ کیا جہاں کے Aboriginal باشندے، جنگوں اور جھڑپوں کے سبب مرگٸے یا بھاگ گٸے تھے۔ ہمارے ان دو بزرگوں نے داریل سے ”وارپار“ آٸے ہوۓ ایک شخص ”شکوٸی“ کے بچوں سے ملکر ”وارپار“ علاقے کی دوبارہ آبادی شِکیوٹ کے نام سے کی۔ وہاں رہنے لگے۔ اب بھی ہم شکیوٹ میں ایک جرّی، شریف، باقیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر آسودہ وسیع خاندان رکھتے ہیں۔ تاہم بچوں کے اور اچھے مستقبل کیلیے دوبارہ گلگت شہر میں ہی مقیم ہیں۔
پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
شِکیوٹ سے محبت اب بھی میرے وجود کے ساتھ ساتھ، جب سے لکھنا شروع کیا ہے میرے نام کا بھی حصہ بن گٸی ہے۔ میں پاکستان کے کسی بھی کونے بیٹھ کے کوٸی شعر و نثر لکھوں تو اس کے اختتام پر اپنے نام کے ساتھ شکیوٹ گلگت ہی لکھتا۔ اس وطنی محبت کو میں اپنے الفاظ سے بیان نہیں کرسکتا بس چترالی زبان کے ایک وطنی گیت کا شعر پیشِ خدمت ہے:
ُخوش بِیگیمو تتو وطن
مہ شہر دہن مَجان مہ شہر دہِنو
اس تمہید کا مقصد کسی طرح کی علاقاٸی، نسلی یا گروہی برتری کا مظاہرہ کرنا نہیں ہے۔ میرے نزدیک تو وہ لوگ اس طرح کی روایتی باتوں پہ فخر نما تعصب کرتے جن کے اپنے پلے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا تعصب تو ناکام لوگوں کا شیوہ ہوتا۔ ایک شینا کہاوت بھی ہے
گجر غریب بوت دادو تیکٸ
ہم تو ابھی بہت کچھ کرنا چاہتے کسی بھی تعصب کا شکار ہو ہی نہیں سکتے۔ اس تمہید کا واحد مقصد ”پشتینی باشندگانِ گلگت“ نامی ایک تنظیم کے سربراہ مشتاق احمد صاحب سے اپنا تعارف کرانا تھا جنہوں نے میرے چاچو ڈاکٹر عالمگیر سے گلگت داریل مجوزہ شاہراہ بننے کی حمایت کرنے پر پوچھا تھا کہ ہم کون ہوتے ہیں جو گلگت کے معاملات پر بات کرتے۔
میں نے اپنا تعارف تو کرادیا۔ اب مشتاق صاحب سے یہ تو نہیں پوچھونگا کہ ایک کشمیری جماعت جے۔کے۔ایل۔ایف جواٸن کرنے کے بعد اپنی ہی پوری پنشن نہیں نکال پانے والے سابق پاکستانی سرکاری ملازم (اب کے پاکستان مخالف) بزرگ شخص مشتاق صاحب ہم گلگتیوں کو متعصب علاقہ پرستی کے سوا دے بھی کیا سکتےہیں؟ خیر، عملی طور پر اس تنظیم کا کوٸی موثر رول تو نہیں، پھر بھی قلندر پلازہ گلگت میں ایک دفتر بنا کے فیس بک اور اخبارات میں یہ لوگ اپنے آپ کو گلگت کے نماٸندے بتاتے ہیں تو ان کو تھوڑی لفٹ تو کروانا پڑے گی۔ اس ضمن میں ان کی تنظیم اور ہمارے شِکیوٹ چلے جانے کے بعد پیچھے ان باشند گان نے کیا گل کھلاۓ ان پہ احتراماً ہی سہی ضرور کچھ سوال پوچھو ں گا۔
ہاں جی باشندگان صاحبان !
کیا آپ وہ لوگ نہیں ہیں جن کے پرکھوں کی راجہ گوہر امان کے ایک ہی حملے کے بعد چییخیں نکل گٸی تھیں۔ ١٨٥٢ میں سیدھا سری نگر جا کے مہاراجہ کشمیر سے مدد کی بھیک مانگی تھی کہ آو بھٸ ہمیں گوہر امان سے بچالو۔ نتیجتاً مہاراجہ سے پورے گلگت پر قبضہ کر وایا تھا ۔ ابھی تک گلگت بلتستان کی متنازعہ اور عجیب و غریب شناخت کے زمہ دار تو آپ لوگ ہو جنہوں نے اپنی جان بچانے کیلیے مہاراجہ کشمیر کو یہاں بلایا تھا اور گلگت دھرتی اس کی جھولی میں ڈال دی تھی۔ اور ہم وہ لوگ ہیں جن کے علاقے شکیوٹ کے مغربی میدان ”بیارچی“ میں گوہر امان کے خلاف گلگت کی طرفداری میں سب سے بڑی مزاحمت ہوٸی تھی۔ثبوت کے طور پر اسی لیے آج بھی شکیوٹ ضلع گلگت کی مغربی سرحد ہے۔ پھر ہم سے پوچھتے ہو کہ گلگت کے معاملات پر بولنے والے ہم کون ہوتے ؟ گلگت کا دفاع ہم نے کیا ہے تو بات کون کرے گا؟
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
وہ بولنے لگے تو ہم ہی پر برس پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھتے ہیں، معاشی حقاٸق کی بات کرتے۔ یہ جو باشندگی کی رٹ لگاٸی جاتی ہے اس کے فاٸدے نقصانات کی بات کرتے ہیں۔ گلگت میں جب باہر سے لوگ نہیں آۓ تھے تب کیا باشندوں کے معاشی حالات اچھے تھے ؟ بلکل بھی نہیں تھے۔ آپ کو مجھ سے زیادہ پتہ ہوگا معاشی تنگدستی کی ایک مثال پڑھ لیں کہ ماضی میں یہاں مرد حضرات کے پاس صرف ایک ہی اونی چوغہ پہننے کیلیے ہوا کرتا تھا، جسے وہ دھلا دھلا کر بار بار پہنتے تھے۔ دھلاٸی کے وقت خود کمبل میں چھپ جاتے تھے کہ وہی چوغہ خشک ہوگا تو پہن کے باہر کام کاج پہ نکلیں گے۔ جی ہاں گلگت شہر کے حالات ! ماضی کے معروف شاعر معبوب ولی خان نے اس تنگدستی کی طرف اپنے شنا مصرعے میں اشارہ کیا تھا
نی کنٹرولٸی شَیے تھانی دینن
آپ انور صاحب نمبردارِ خومر سے مزید کنفرم کر لیں کہ ماضی میں یہاں کتنی معاشی ناآسودگیاں تھیں۔ وہ تو شکرکریں دوسرے موضع جات سے لوگ یہاں آۓ معاشی سرگرمیاں کیں تو گلگت ایک معاشی ھب بن گیا۔ اور آج پاکستان کے بڑے اہم شہروں میں گلگت کا شمار ہوتا۔
مزید آگے بڑتے ہیں۔ ہم جہاں رہتے تھے وہاں ایک ایک کنال کی حفاظت کی ہے۔ پچھلے دنوں کی ہی بات ہے شکیوٹ میں گجروں کی ایک زمین پھنڈر کے ایک شخص نے خفیہ طور پر خریدنے کی کوشش کی تو ہم نے سیدھا سیدھا اسے پیغام دیا کہ زمین بہرحال باشندے ہی پہلےخریدں گے اور ہم نے خرید بھی لی۔ اور آپ لوگ تب کہاں جب آپ کی زمینوں پر باہر والوں نے قبضہ کیا ؟ کیا پونیال روڈ سے لیکر اٸیر پورٹ تک ایک کنال کمر شل زمین آپ لوگوں کے پاس ہے ؟ نہیں ہے نا ۔ بڑے آۓ کارگاہ چراگاہ سے چمٹنے والے۔
عجیب بات ہے جس علاقے کا افسر پنجابی ہے، کاروباری اجارہ دار پٹھان ہے، گڈز ٹرانسپورٹ اور ٹرک انڈسٹری ھزاہ وال کے پاس ہے، چراگاہیں اور بسینی زمین ”کلوچو/کوہستانی“ لوگوں کے پاس ہے اور حکمران کشمیری ہیں، اس علاقے کی ایک نام نہاد نماٸیندہ تنظیم کا سربراہ رات کے آٹھ بجے فیس بک پہ آکے کہتا ہے ” محتاط رہیں، ہمارے علاقے میں ہماری مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ ہم گلگت داریل روڈ نہیں بننے دیں گے“
آتی ہے نا ہنسی۔ پھر کسی کے سوال پوچھنے پر پوچھتے ہیں کہ تم لوگ کون ہوتے کہاں سے آکے باتیں کرتے ہو۔
بھٸ سیدھی سی بات ہے گلگت داریل شاہراہ سکون سے بننے دیں۔ اللہ دی قسمے کچھ نہیں ہوگا۔ میرے خون سے لکھ کے لے لیں مجینی محلہ کے شیعہ اور کھنبری محلہ کے سنیوں میں اُنالٸی دوستیاں ہونگی۔ آپ نے جہاں اغیار کو برداشت کیا ہے وہاں اپنوں کی آمد ورفت بھی تھوڑی برداشت کرلیں۔ داریل والے ہم اور آپ کے اپنے ہی ہیں ۔ ہماری شینا زبان بولتے ہیں۔ ہماری طرح شین یشکن قباٸل سے ہیں۔ ان پر اعتماد کریں۔
باقی دہشتگردی کا رونا رورہے تھے نا اپوزیشن لیڈر تو اسکو بتا دیا جاۓ کہ گلگت پولیس میں دہشتگرد روکنے کی صلاحیت مجود ہے ۔ کیا وہ بھول گٸے پچھلی دفعہ جب سنی دہشتگردوں نے کارگاہ چوکی پر حملہ کیا تو اسی سنی فرقے کے ہی ہمارے تین پولیس جوانوں نے سینے پہ گولیاں کھا کے حملہ ناکام بنا دیا تھا۔ داریل کے دہشتگرد کمانڈر خلیل کو میرے ماموں حوالدار زکریا نے مار دیا تھا، اور اس سے بھی خوبصورت بات یہ ہے کہ داریل والوں نے اس دہشتگردی کے خلاف داریل میں زبردست احتجاج بھی کیا تھا۔
جب ہمیں کوٸی ڈر یا ان پہ کوٸی غصہ وغیرہ نہیں تو کیپٹن شفیع اور جاوید کو کیا مسٸلہ ہے۔ ایک ایک دہشتگردی کا واقعہ تو بابوسرروڈ اور کے کے ایچ کے اوپر بھی ہوا تھا۔ کیا وہ سڑکیں بھی بند کی جاٸیں۔ ؟ بھٸ قباٸلی معاشرے جب شہری معاشرے بنیں گےتو پورےعلاقے کا فاٸدہ ہوگا۔ رابطے بہر حال زیادہ ہونا ہی اچھا ہے۔
کنٹرول لاٸن پر کاگل سکردو کاریڈور، گلگت تاجکستان روڈ، اور استور شونٹر انڈیا روڈ جیسی انٹرنیشنل شاہراہیں ڈیمانڈ کرنے والے قوم پرست بھی جب داریل گلگت روٹ جیسے انٹر ڈسٹرکٹ پروجیکٹ کی مخالفت کرتے تو مجھے ان لوگوں کی قوم پرستی اور ذہنی حالت پہ غصہ نہیں ترس آجاتا۔
نوٹ: مشتاق صاحب ایک بزرگ آدمی ہیں میرے ساتھ ایڈ ہیں۔ان سے علمی اور منطقی اختلاف کریں ان کے بارے کوٸی غیر اخلاقی کمنٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ شکریہ ۔
اشتیاق احمد، شِکیوٹ گلگت۔