اسیران ہنزہ فوری انصاف کے منتظر
تحریر: ایمان شاہ
در اصل زندگی اپنے اندر ہی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتی رہتی ہے، انسان کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو، زندگی اس کی اپنی زندگی، اس کا اپنا ضمیر، اس کا اپنا باطن، اس کا اپنا آپ اندر ہی اندر مصروف رہتے ہیں، اس کے اعمال خواہ ظاہری نتیجہ دیں یا نہ دیں اس کے باطن میں نتیجہ ضرور برآمد ہوتا ہے اور یہ نتیجہ سکون یا اضطراب کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔۔۔غلط عمل ایک بچھو کی طرح انسان کے باطن میں موجود رہتا ہے اور وقت کے گزر نے کے ساتھ (بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی)اسے اندر سے ڈستا ہے، انسان اس صورتحال سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، فرار چاہتا ہے، قرار چاہتا ہے، لیکن اس کیلئے نہ تو قرار ہوتا ہے اور نہ ہی فرار۔۔۔۔ انسان اپنے آپ سے بھاگ نہیں سکتا، انسان ظالم بھی ہے اور مطلوم بھی، وہ اپنا قاتل بھی خود ہے اور نوحہ گر بھی، انسان اپنی پسند، خواہشات اور ضروریات کے نام پر ایک ناپسند حاصل تک پہنچتا ہے اور یہ حاصل اضطراب اور کرب کہلاتی ہے۔۔۔۔
کرنل راشد کریم بیگ کی شہادت امیر حیات شہید کی قربانیوں کا تسلسل ہے اور شہادتوں کا یہ سلسلہ 72سالوں پر محیط ہے اور جنگ آزادی گلگت بلتستان (1947) پاک بھارت جنگ (1965) پاک بھارت جنگ (1971) سیاچن کے محاذ پر 1984سے اب تک کی شہادتیں، کرگل جنگ(1999)، دہشت گردی کا صفایا کرنے کیلئے کئے گئے مختلف آپریشنز جن میں آپریشن شیر دل، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات، آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن رد الفساد تک میں ہنزہ کے سپوتوں نے وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے اپنے لہو کی قیمت ادا کی ہے اور کرنل رشد کریم بیگ کا لہو بھی اسی سلسلے کا تسلسل ہے اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، ہنزہ کے عوام کی ان بے پناہ قربانیوں پر پانی پھیرنے کیلئے ایک مخصوص لابی گزشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا پر سرگرم ہے اور اس لابی کا ایجنڈا یہی ہے کہ ہنزہ کے نوجوانوں میں مایوسی پھیلائی جائے اور بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت کو بر قرار رکھنے کیلئے گمراہ کن پروپیگنڈہ کچھ اس طرح پھیلایا جائے کہ ”سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے“ والی صورتحال رہے، سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والی صورتحال کی وضاحت کچھ اس طرح ہو سکتی ہے کہ نوجوانوں میں اضطرابی کیفیت، بے یقینی اور مایوسی پھیلانے والے مٹھی بھر عناصر بظاہر ہنزہ کے عوام کے ہمدرد بن کر اپنا اصلی چہرہ چھپائے رکھیں گے اور ایسے عناصر کا اصلی چہرہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی طور ریاست ہنزہ اور یہاں کے باسیوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے عملی جدوجہد کی بجائے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے سوشل میڈیا کے تمام فورمز پر ایسے مغلظات بکتے رہیں گے تاکہ پڑھے لکھے نوجوان انکے جھانسے میں آکر مذہب اور ریاست سے دور ہوتے چلے جائیں، ایسے عناصر کو لگام دئیے بغیر امیر حیات شہید سے لیکر کرنل راشد کریم بیگ کی قربانیوں کا صلہ ہنزہ کے عوام کو نہیں مل سکے گا اور ایسے عناصر کو لگام دینے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر فورم پر انکی نہ صرف مذمت اور اگر مناسب ہو تو مرمت کا بھی مناسب بندوبست ہو سکے تو اجر اور ثواب مل سکتا ہے۔۔۔۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں اور تصویر کا دوسرا رخ جس کا تعلق حکومتی و سرکاری اور ریاستی اداروں کی بعض متعصبانہ پالیسیوں پر مبنی ہے وہ بھی زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ بھیانک ہے، سیاسی حکومتیں اور ریاستی ادارے ہنزہ کے عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کررہی ہیں جس کا براہ راست فائدہ کالم کے پہلے حصے میں موضوع بحث عناصر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، مختلف ادوار کی سیاسی حکومتوں اور سرکاری اداروں کی متعصبانہ روش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سانحہ عطاء آباد کے متاثرین کے احتجاج (11اگست 2011) کو بلا وجہ خون آلود کرتے ہوئے دو بے گناہ افراد کے قتل میں ملوث سرکاری اہلکار ترقیاب بھی ہو گئے اور مراعات کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس بد ترین ظلم اور بربریت کے خلاف احتجاج کرنے کا الزام لگا کر نہ صرف سینکڑوں نوجوانوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ درجن سے زائد نوجوان اس الزام کے تحت پابند سلاسل ہیں اور ناکردہ گناہوں کی سزاء بھگت رہے ہیں، ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ آٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی منظر عام پر نہیں لائی گئی، سانحہ علی آباد کی تحقیقات کیلئے محمد عالم (تب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گلگت) کو جوڈیشل انکوائری کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی، اچھی شہرت کے حامل اس جج نے انکوائری مکمل کرکے صوبائی حکومت کو وقت مقررہ پر پیش کر دی تھی تاہم اس انکوائری رپورٹ کو سامنے نہ لاکر بد ترین بد دیانتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، انکوائری رپورٹ سامنے نہ لائے جانے کی بظاہر سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس رپورٹ میں باپ بیٹے کو سیدھی گولی مار کر شہید کرنے والے پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہو جس کو چھپانے کیلئے مہدی شاہ اور اب حفیظ سرکار اس رپورٹ کے مندر جات سامنے لانے کی ہمت نہ کر سکی اور شاید آئندہ آنے والی کوئی اورحکومت بھی یہ جرات نہ کر پائیگی، عدالت عظمیٰ میں اسیران ہنزہ کی نظر ثانی کی درخواست گزشتہ ڈھائی سالوں سے زیر التوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسیران ہنزہ کو انصاف دئیے بغیر ہنزہ کے عوام بالخصوص نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسیوں کا خاتمہ ممکن نہیں اور ان مایوسیوں کا خاتمہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ریاست مخالف بھٹکے ہوئے مٹھی بھر عناصر نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے اس انتہائی حساس ایشو کو استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔۔
ایک اور اہم مسئلہ قانون ساز اسمبلی میں ہنزہ کے عوام کو نمائندگی سے محرومی کا ہے، نومبر 2015میں میر غضنفر گورنر کے عہدے پر فائز ہو گئے اور نشست خالی ہو گئی، انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ 60دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاتا، تین مرتبہ ضمنی انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان کر دیا گیا اور نامعلوم وجوہات کا سہارا لیکر اگلی تاریخ دی جاتی رہی اور غالباً 9ماہ نمائندگی سے محروم رکھ کر ضمنی انتخابات کرائے گئے، چند ماہ بعد سلیم خا ن کو سپریم اپیلیٹ کورٹ نے نا اہل قرار دیا جسکے ڈیڑھ سال بعد بھی ضمنی الیکشن کا انعقاد کی نوبت نہیں آئی اور یوں 8جون 2015سے لیکر کالم کی اشاعت (23جون 2019) تک قانون ساز اسمبلی میں ہنزہ کی نمائندگی چند ماہ تک ہی محدود رہی ہے، اگلے انتخابات کیلئے اب چند ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے اور اس بات کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے کہ ہنزہ میں ضمنی الیکشن کا انعقاد ممکن ہو اور یوں ہنزہ عوامی نمائندگی سے محروم رہنے والا واحد ضلع بننے کا اعزاز حاصل کر لے گا، ریاست مخالف عناصر کو تقویت دینے کا تیسرا مسئلہ ضلع ہنزہ میں کرپٹ، نا اہل اور بد دیانت بیوروکریسی کی تعیناتی ہے، گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ صوبائی حکومت نے بھی ہنزہ کے عوام پر ایسی بیوروکریسی کو مسلط رکھنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا جو عوامی اہمیت کے منصوبوں میں خرد برد کرنے، تعصبات کو بھڑکانے، اندرون خانہ بھرتیاں کرنے اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔۔۔۔۔
بعض اوقات تو مجھے خود اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اختیار رکھنے والے ادارے ہنزہ کے عوام کی گردن پر پاؤں بھی رکھے ہوئے ہیں اور چیخنے بھی نہیں دیتے، ایسا بھی تاثر ہے کہ اس علاقے کے عوام پر تمام دروازے کھڑکیاں اور حتیٰ کہ روشن دان بھی بند کر دئیے گئے ہیں، یہ صورتحال تباہ کن، بھیانک اور خطرناک ہے اور اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کیلئے ریاستی اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کو کردار ادا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، زیادتیاں ہو چکی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں، تاہم ان زیادتیوں اور نا انصافیوں کی آڑ میں ریاست پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے عناصر کو لگام دینے کیلئے ہنزہ کے علماء، وکلاء، صحافیوں، سول سوسائٹی اور بزنس کمیونٹی کو اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہنا چاہئے، جنگ آزادی گلگت بلتستان کے اولین شہید امیر حیات سے لیکر کرنل راشد کریم بیگ کی قربانیوں پر پانی پھیرنے والے عناصر کی بیخ کنی کیلئے ہنزہ کے عوام کے جائز مطالبات بالخصوص اسیران ہنزہ کیساتھ فوری انصاف وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔۔