خراب تعلیمی معیار۔۔۔۔اسباب،وجوہات اور تجاویز امجد حسین برچہ

خراب تعلیمی معیار۔۔۔۔اسباب،وجوہات اور تجاویز

امجد حسین برچہ

تعلیم ایک مسلسل عمل ہے جس میں بہتری کے لیے بروقت اور مسلسل مناسب منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے ورنہ نتائج کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے نتائج مہینوں یا سالوں میں نہیں بلکہ عشروں بعد سامنے آتے ہیں اور سرمایہ کاری بہتر انداز میں کی جائے اور اس دوران محاصل و نقصانات کا باریک بینی سے جائزہ لیکر منصوبہ بندی کی جائے تو اس سرمایہ کاری سے نسلیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن اگر تعلیم کے حوالے سے کی جانے والی منصوبہ بندی میں کسی قسم کی جلد بازی اور عجلت سے کام لیا جائے تو نسل در نسل خمیازہ بھگتتی رہے گی۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تعلیمی ترقی کا راز یہی ہے کی وہ دونوں قسم کی یعنی طویل المدتی Long termاور قلیل المدتی Short term پالیسیاں مرتب کر کے ان پر عمل درآمد کراتے ہیں اس ان پالیسیوں اور منصوبہ بندی میں ماہرین کی مدد حاصل کی جاتی ہے اور ہر زاوئے سے معاملات کو پرکھا جاتا ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں بالعموم گلگت بلتستان میںبالخصوص اس اہم شعبے کو سب سے غیراہم سمجھا جاتا ہے. جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے چل رہا ہے گزشتہ ادوار میں تو استاد کے عہدوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگی رہی اس کے نتائج پر میں نے رواں سال مئی میں "گلگت بلتستان کا تباہ حال تعلیمی معیار" کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں آج کی ہی نہیں بلکہ آنے والے وقتوں میں سرکاری تعلیمی اداروںکے معیار اور اس کے اثرات کی نشاندہی کی تھی۔بہر حال گلگت بلتستان میں نظام تعلیم اور معیار تعلیم کا ازا سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قوم کے معماروں کے اس محکمے کے سربراہ(سیکریٹری )کا کتنی بار تبادلہ ہوا اور اس محکمے کو صراط المستقیم پر ڈالنے کی کوشش اور مخلصانہ جد و جہد کرنے والے سیکریٹری سید وحید شاہ کاغیر ضروری اور قبل از وقت تبادلہ بھی دراصل اس اہم شعبے کی حکومتی نظروں میں غیر اہم ہونے کی واضح دلیل ہے جبکہ فنڈز کی فراہمی،تعلیمی اداروں اور تدریسی عملے کی کاکردگی جانچنے کے لئے میکنیز م کا نہ ہونا،انتظامی آفیسران کی دلچسپی سمیت دیگر ضروری اور ناگزیر اقدامات کا نہ ہونا بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل شعبے کو نظر انداز کرنے ذمرے میں شامل ہے۔
 فیڈرل بورڈ میں گلگت بلتستان کے کالجز کے ناقص نتائج نے کئی سوالات جنم دئیے ہیں کہ اس نقصان کا اصل ذمہ دار کون ہے۔۔۔؟ انتظامی آفیسران, حکومتی عہد یداران یا وہ اساتذہ جو بالواسطہ طلبہ اور کلاس روم سے منسلک ہیںیا خود طلبا اور والدین۔۔۔۔۔؟ حالیہ کے ناقص نتائج پرسوشل میڈیا پربھی شور برپا ہے پرنٹ میڈیا پر بھی ناقص نتائج پر کالمز اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف زاویوں سے تجزئیے اور تنصرے جاری ہیں ۔۔۔۔۔دکھ اس بات کا ہے کہ ماضی کی طرح یہ طوفان بھی تھم جائے گا اور حکومتی اور انتظامی آفیسران و ذمہ داران یہ سب بھی ایسے ہی بھول جائیں اور آئندہ کے جھٹکے تک یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جائے گا اور ایسا لگے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
 سماجی اور عوامی حلقوں کی رائے ،تجزیوں او رتبصروں سے جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے مطابق تمام سٹیک ہولڈرز اس ناکامی میں برابر کے شریک ہیں. جہاں ایک استاد کو براہ راست مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے وہاں حکومتی اور انتظامی آفیسران کو بری الزمہ قرار دینا نا انصافی ہوگی کیونکہ اداروں کی ناکامی کی ذمہ داری براہ راست اس ادارے کی سربراہ پر پڑتی ہے ادارے کی سربراہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کی وہ بہتر کارکردگی کے لئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں مرتب کرے تاکہ افراد کے تقرر اور تبادلوں کے باوجود مرتب شدہ پالیسیاں تواتر کے ساتھ آگے بڑھ سکیںلیکن گلگت بلتستان کے تعلیمی شعبے میں ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے انتظامی عہدوں پرتقرریوں میں میرٹ کی پامالی زبان زد عام ہو چکی ہیں جو براہ راست اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ کا مورال پر اثر انداز ہو رہا ہے دوسری جانب اساتذہ کی بڑی تعداد جس سکیل میں تعینات ہوئی ہے اسی سکیل میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے رٹائرمنٹ کے قریب ہیں جبکہ انتظامی آفیسران کو وقت سے قبل ترقیاں،تدریسی عملے کے ساتھ اس حوالے سے بھی امتیازی سلوک اور سفارشی عملے کی من پسند سٹیشنوں پر تعیناتیاں اور ایسے بعض ایسے اساتذہ کو کھلی چھوٹ دینا جن کی اہلیت سوالیہ نشان بن چکی ہو پر نظر ثانی اور ٹھوس اقدامات کے بغیر معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے درجہ ذیل تجاویز بارآور ثابت ہو سکتی ہیں کہ جہاں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے تدریسی اور انتظامی عملے کے تقرریوں اور تبادلوں میںمیرٹ اور شفافیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے وہاں نظام تعلیم کا از سر نو جائزہ لیکر نظام میں ضروری اصلاحات ناگزیر ہیں ۔اساتذہ کی کاکردگی کی بنیاد پر تقرر و تبادلے اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی نتائج سے مشروط کئے جا ئیں ایک ٹیچر (لیکچرر،پروفیسر)جو محنت ،لگن سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتا ہے اور ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے کے مقابلے میں نااہل اور ٹائم پاس کرنے والے اساتذہ کی بھی وہی تنخواہ اور مراعات ہوں گی تو یہ ناانصافی ہو گی اور ظاہر ہے ایماندار اور بے ایمان کو ترازو کے پلڑے میں برابر نہیں کیا جا سکتا اس مقصد کے لئے مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دی جائیں جبکہ طلباءکے لئے بھی شرائط طے کئے جائیں مثلاً سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے میرٹ تو نہیں رکھا جا سکتا لیکن داخلے لینے اور کلاسیں شروع ہونے کے بعد طلباءکو پابند بنائیں کہ وہ تین ماہ کے اند اپنی کاکردگی دکھائے اور اس دورانئے میں بہتری کی طرف جانب گامزن طلباءکو امتحان میں شریک ہونے کا موقع دیں جبکہ کاکردگی اور سنجیدگی نہ دکھانے والے طلباءکے والدین کو طلب کرکے انہیں مشورہ دیں کہ وہ اپنے بیٹے /بیٹی کو تکنیکی کام سکھائے جس میں وہ دلچسپی رکھتے ہوں ۔آخری یہ کہ تعلیم کو کلرک پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور صرف امتحانی نتائج پر توجہ مرکو زنہ کی جائے بلکہ تعلیم کے ذریعے آئندہ نسلوں کے لئے سائنسدان،سیاستدان،انجینئرز اور ڈاکٹرز پیدا کئے جائیں۔
فیڈرل بورڈ کے حالیہ نتائج میں کالجز کے ناقص نتائج کے بعد صوبائی وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی حرکت میںآچکے ہیں دیر آئد درست آئد کے مصداق اگر اب بھی محکمہ تعلیم کا قبلہ درست کرنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ،مربوط پالیسی مرتب کی گئی اور نظام تعلیم کو درست سمت دینے کی مخلصانہ کوششیں کی گئیں تو معاملات درست ہو سکتے ہیں اگر اس دفعہ بھی ہونے والے اجلاس نشساً گفتاً برخاساتاً ثابت ہوئے گلگت بلتستان کی آںے والی نسلیں بھاری قیمت چکھائیں گی اور تو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی کی صدارت میں دوسری کوآرڈینیشن میٹنگ “منعقد ہوئی ہے اس اہم میٹنگ کا بنیادی مقصد فیڈرل ایگزام بورڈ کے تحت ہونے والے فرسٹ ایئر کے امتحان کے خراب نتائج کے اسباب تلاش کرنا اور مستقبل میں نتائج اور معیارِ تعلیم کو بہتر کرنے کے حوالے سے ٹھوس اور قابلِ عمل لائحہ عمل تشکیل دینا تھا۔ میٹنگ میں صوبائی وزیرِ تعلیم گلگت بلتستان حاجی ابراہیم ثنائی صاحب اور سیکریٹری تعلیم گلگت بلتستان سیّد اختر حسین رضوی کے علاوہ نظامتِ تعلیمات (کالجز) کے سینئر اہلکاروں اور کالجز کے پرنسپلز نے شرکت کی۔ میٹنگ میں وزیرِ تعلیم اور سیکریٹری تعلیم نے فیڈرل بورڈ کے فرسٹ ایئر کے خراب رزلٹ پر عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم سب کا محور و مرکز طالب علم ہونا چایئے کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خلوصِ دل سے طالب علموں کی تعلیم و تربیت پر اپنی بھر پور توانائیاں بروئے کار لائیں۔کوآرڈینیشن میٹنگ میں رزلٹ کو بہتر کرنے اور معیارِ تعلیم میں اضافے کے لیے جو اہم فیصلے کیے گئے اُن کی تفصیل کچھ یوں ہے ؛ کالجز کی داخلہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا جس سے امتحان کے نتائج کو پروان چڑھانے میں ملے، کالجز کی تمام کمیٹیز بالخصوص اکیڈیمک کمیٹی کو فعال کیا جائے گا، گلگت بلتستان کے سرکاری کالجز کے پرنسپلز کی آئندہ تعیناتی اور پوسٹننگ ” کی پر فارمننگ اِنڈیکیٹرز“ کی بنیاد پر عمل میں لائی جائے گی ، جو سٹاف ایک سٹیشن پر ۳ سال سے زائد عرصے سے تعینات ہیں اور اُن کی کارکردگی معیاری نہیں اُن کی پوسٹنگ کی جائے گی،غیر ضروری چُھٹیاں کم کی جائیں گی اور اکیڈیمک سیشن باقاعدہ امتحان تک جاری رہے گا، لیکچر پیریڈ کے اوقات میں اضافہ کیا جائے گا، وِنٹر اور سمر کیمپس کا باقاعدہ اجراءکیا جائے گا، پوسٹننگ / ٹرانسفری چھٹیوں کے درمیان کی جائے گی، تمام کالجز میں ماہانہ ٹیسٹ اور ڈٹینشن ٹیسٹ کو مذید مستحکم کیا جائے گا اور رزلٹ کے بارے میں اور اصلاح احوال کے لیے والدین سے رسمی تبادلہ ءخیال کیا جائے گا ، پیپرز کے پیٹرن اور پورے امتحانی نظام کو مذید بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے فیدرل ایگزام بورڈ کے ذمہ داران سے مدد لی جائے گی اور پرنسپلز اور فیکلٹی کو ٹریننگ دی جائے گی، ای لرننگ کی تیکنیک کو بروئے کار لاتے ہوئے آن لائن اِنٹر ایکٹیو لرننگ کو فروغ دیا جائے گا، چونکہ کالجز میں اساتذہ کی کمی ہے اس لیے معزز عدالت میں لیکچررز کا زیرِ التوا کیس کے حوالے سے معزز عدالت کو استدعا کی جائے گی کہ اس کیس کا جلد اور مستقل حل نکالا جائے، کچھ عرصے سے سکولوں پر کافی زیادہ توجہ مرکوز کی گئی تھی اب سکولوں کے ساتھ ساتھ کالجز پر بھی بہت زیادہ توجہ دی جائے گی ۔

Post a Comment

0 Comments