حسب ِ حال
کلام:نوشاد شیراز نوشی
4/8/2019
مجھ سے پوچھتے ہیں وہ کیا کوئی سوال ہے؟
سن لو اے امیر شہر! جینا بھی محال ہے !
مر رہے ہیں روز ہم بے بسی کی آڑ میں
ظلم کو کروں بیاں ؟ کیا میری مجال ہے!
روز وشب ہیں سانحات روز وشب ہیں واردات
رہبری میں تیری کیوں ؟ کیا تیرا خیال ہے؟
روزگار بھی نہیں،نہ سکوں ہے زیست میں
عدل کے ہیں منتظر جرم ہی فعال ہے!
رنگ برنگی محفلیں ، ہے سدا منافقت
شر ،بدی کے بت سدا ہر جگہ وبال ہے!
چار سو ہیں کہسار، وادیاں ہیں بیچ میں
حسن ، بحر و بر یہاں امن ہی شمال ہے!
ہے تماشا زندگی انقلاب اب کہاں؟
کٹ رہے ہیں روز سر ہاں ترا کمال ہے!
انقلاب ، انقلاب میں سراپا انقلاب !
سر جھکے گا اب نہیں، جی یہی سوال ہے!
نوشی تم بھلا کہاں پا سکو فلاح یوں؟
حشر کا ہے اب سماں قوم کو زوال ہے!
0 Comments