عصر حاضر میں، اساتذہ کو درپیش چیلنجز
تحریر:علی مدد
تیزی سے بدلتی دنیا میں، جہاں انسان کو بیشمار معاشی ، سیاسی ، ماحولیاتی، معاشرتی، صحت ، اخلاقی اور روحانی چیلنجز کا سامنا ہے ، وہاں معاشرے کا سب سے معتبر پیشہ / درس وتدریس اور اس سے وابستہ طبقہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکا ہے۔ دنیا میں تیزی سے وقوع پزیر نت نئی ایجادات ، سیاسی طاقتوں کے مابین کھینچاتانی، مادیت پرستی اور سرمایہ درانہ نظام کے اندر موجود کمزوریوں نے ہر شعبہ زندگی کو باالعموم ،انسانی اخلاقیات اور احساس مروت کو بالخصوص بے حد متاثر کیا ہے۔ آج دنیا میں مادی فراوانی تو بہت ہے لیکن روح آہ، سوز و گداز سے خالی ہے ۔
بے یقینی اور افراتفری کا عالم عروج پر ہے۔ رشتے تیزی سے سکڑ رہے ہیں، اسلام کا آفاقی پیغام یعنی امن ، بھائی چارہ ، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت ، ہمسائے کے حقوق، یتیم ، مسکین کی دلجوئی کرنا ، صلح رحمی، بزرگ والدین کو اف تک نہ کہنا وغیرہ محض الفاظ کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ، ایسے میں درس وتدریس سے منسلک افراد کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ استاد ہی ہے جو مستقبل کے معماروں کی درست شخصیت سازی اور صحیح سمت متعین کرتاہے، تاکہ معاشرے کو ایک صحت مند اور متوازن قیادت / افراد مل سکے، جو معاشی ، معاشرتی انصاف کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار پر مبنی معاشرے کا وجود عمل میں لانے میں مددگار ثابت ہو ۔ اساتذہ کیلے درپیش چیلینجز کی فہرست بہت طویل ہے۔ صرف چند ایک پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جن میں کلاس اور کلاس روم سے باہر استاد اور شاگرد کا رشتہ، اس رشتے کی تقدس کو برقرار رکھنا ، درس و تدریس کے جدید طریقوں سے خود اگاہی ، لکچر کے دوران ایڈز / جدید گیجٹس کا بہتر استعمال، بچوں کی علمی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور زہنی نشوونما پر بھی توجہ مرکوز کرنا اور سب سے بڑھ کر کردار سازی اور اخلاقیات کے میدان میں استاد اپنے آپ کو بطور رول ماڈل پیش کرنا شامل ہیں۔
درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ دور جدید کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے ۔ ان کا خیال ہےکہ ان ایام میں جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے، ماں کو زیادہ سے زیادہ آرام ، احتیاط کی ضرورت ہے۔ مناسب اور متوازن غذا، آرام دہ ماحول کا میسر ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اس نظریے کو سامنے رکھتے ہویے دنیا بھر میں خاص کر ترقیاتی دنیا میں" ای سی ڈی" یعنی Early childhood Development کا نظریہ متعارف کرایا گیا ۔ خوش قسمتی سے گلگت بلتستان ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں اس نئے نظام کا عملاً آغاز ہوچکا ہے ۔ آغا خان ایجوکیشن سروس نے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ رفتہ رفتہ علاقے کے طول و عرض میں بھی اس نئے نظام کو خوش آمدید اور سراہا جا رہا ہے الحمدللہ۔
ماں کے پیٹ میں سکھلائی کا نظریہ بہت پرانا ہے ۔ سقراط اور ان کے شاگرد اس نظریے کے خالق مانے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی تعلیمات اور کتابوں میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہیں ۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ بچے ماں کے پیٹ سے لیکر شروع کے پانچ، چھ سال تک گردو پیش کی سکھلائی کو جلدی اپناتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اس عمر میں بچوں کے لیے خواتین بہترین ٹیچر ثابت ہوسکتی ہیں ، کیونکہ بچوں کی جزباتی نشوونما کیلے جب وہ سکول جاتے ہیں، بچے اور ماؤں کے درمیان مختصر جدائی کے خلا کو خواتین ٹیچرز بہتر طور پر پُر کرسکتی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کیلے ، سقراط نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایتھنز / قدیم یونان میں زہین اور صحت مند عورتوں کی شادی بیاہ زہین اور صحتِ مند مردوں سے کی جانی چاہئے تاکہ بہترین نسل / قوم پیدا ہو سکے اور ایسے بچوں کی پرورش والدین کی بجائے ریاست خود کریں ۔ سقراط اس میں کتنے کامیاب ہوئے ، ہم کچھ نہیں جانتے ہیں ۔ قدیم یونان کے علاؤہ اسلامی تاریخ میں بھی اولیا اللہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ بہت سے خوش قسمت بچے جو بعد میں ولایت کے درجے پر فائز ہوئے، جن میں شیخِ عبد القادر جیلانی بھی شامل ہیں ، بہت چھوٹی عمر میں ہی قرآن، تصوف ، روحانیت اور دیگر علوم میں بے پناہ مہارت رکھتے تھے ۔جب ان کی غیر معمولی ذہانت اور دین سے لگاؤ کے بارے میں کھوج لگایا گیا تو پتہ چلا کہ ان سب کی ماؤں میں ایک چیز مشترکہ تھی، وہ سب اپنے زمانے میں بہت ہی نیک ، متقی اور عبادت گزار تھیں۔ ان ایام میں جب بچہ پیٹ میں ہوا کرتا تھا ،زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر اور درود و تسبیح کا ورد کیا کرتی تھیں ، سبحان اللہ۔
گو کہ اس آرٹیکل میں زیر بحث موضوع پر تفصیلاً قلم اٹھانا، تمام عوامل اور چیلنجز کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ،یہ اہل علم / تعلیمی ماہرین کا کام ہے، البتہ تین سکول جانے والے بچوں کا باب ہونے کے ناطے جو وقت بچوں کے ساتھ گھر میں گزارتے ہیں، ان کے حوالے سے مشاہدات سامنے آتی ہیں، بات چیت ہوتی ہے ، ان کا اٹھنا بیٹھنا، غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی، وقتاً فوقتاً اساتذہ سے ملاقاتیں اور دیگر مشاہدات ، خصوصاً بچوں کا الیکٹرانک گیجٹس اور سوشل میڈیا کا بے جا استعمال، ایریاز جس میں بچے کمزور دیکھائی دیتے ہیں ، جہاں قابل احترام اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اس پر اپنے خیالات قلم کے ذریعے محترم قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرونگا۔
خوش قسمتی سے اپنے ادارے میں جہاں روزی، روزگار لگی ہوئی ہے، دو سال خود بھی درس وتدریس سے منسلک رہا ہوں، جس کی وجہ سے کافی کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کو ملا۔
بحثیت والدین ہم اپنے بچوں سے ان کے مستقبل کے حوالے سےکیا چاہتے ہیں ، اور اساتذہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کیا تواقعات رکھتے؟ اس سوال کا ایک لائین یا چند سطور میں جواب دینا مشکل ہے کیونکہ والدین کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ البتہ بچوں کی بہتر مستقبل اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بعض چیزیں ایسی ہیں جن پر تقریباً تمام والدین متفق ہوسکتے ہیں ۔ یعنی سکول / کالجز / یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت بھی ہو تاکہ کل بچے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ایک اچھے اور زمہ دار شہری کے طور پر ابھر سکے اور زندگی کے فرائض بہتر طور پر سر انجام دے سکے۔ ایک اور سوال ؛ بحثیت مسلمان والدین، ہم اپنی اولاد کیلے کس قسم کا مستقبل / سمت متعین کرنا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلے ہمیں مزہب یعنی دین اسلام سے مدد اور رہنمائی حاصل کرنی ہوگی ۔ یعنی اللّٰہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے ؟ یا کس قسم کا انسان اللہ کو مطلوب ہے؟
اس حوالے سے پورے قرآن کا نچوڑ یہ ہے کہ ، اللہ کو مطلوب اصل انسان وہی ہے ، جو دین اور دنیا میں توزان قائم کرسکے ۔ نہ جوگی کی طرح کسی پہاڑی ، غار میں پناہ تلاش کرے اور نہ دنیوی زندگی کے رنگینیوں میں مست / غرق ہو جائے اور نہ صرف دنیوی تعلیم , پیسے کمانے کو زندگی کا مقصد بنائے اور خود احساس سے عاری چلتا پھرتا ایک روبوٹ بن جائے ، بلکہ زندگی کے باقی پہلوں جس میں دین ، اخلاقیات بھی ہیں، کو بھی زندگی میں شامل کریں ۔ دونوں دنیاؤں کو ان کے مناسب مقام پر رکھے۔
بچوں میں یہ توازن والدین کے بعد اساتذہ ہی پیدا کرسکتے ہیں ۔استاد کا کام بچے کو اے سے ایپل پڑھانا ہی کافی نہیں ، بلکہ بچے کو یہ بھی سکھانا ضروری ہے کہ اگر اس کے پاس ایک سیب ہے تو اسے شئیر کس طرح کرتے ہیں؟ بچے کو تخلیق کائنات اور اس کی ہئیت پر لکچر دیتے وقت خالق کائنات کے بارے میں بھی تھوڈا کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ محترم ڈاکٹر ھود بھائی یا چند دنیا پرستوں کی طرح دین / مزہب کا نام لینے سے ہمیں شرمانانے کی کوئی ضرورت نہیں ،البتہ یہ زہن میں ضرور رکھا جائے کہ ریاضی ، کمسٹری یا بیالوجی کا لکچر اسلامیات کی نظر نہ ہو جائے ۔ توازن ضروری ہے جو دین اسلام کی روح ہے۔ چونکہ یہاں میرا مطلب مذہب کے عمومی پہلو سے زیادہ اخلاقی پہلو ہے (بچوں کو مزہبی تعلیم گھر ، مزہبی سکول میں بھی دیا جاسکتا ہے ) اسلیے اساتذہ کو دنیوی علم کے ساتھ ساتھ طلباء کی اخلاقی تربیت پر فوکس کرنا ، اور ان میں موجود پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اصل تعلیم و تربیت ہے۔ اخلاقیات ایک ایسا دقیق اور مشکل سبجیکٹ ہے جو لکچر سے کم ،ذاتی عمل سے بہتر طور پر سکھلایا جاسکتا ہے۔ اسلیے کہتے ہیں کہ اچھا استاد وہ ہے جو آپنےطلبا ء کیلے خود مثال بنے۔ مزے کی بات یہ ہے ، بچے کم از کم اٹھارہ گھنٹے والدین کے ساتھ ہوتے ہیں ، لیکن بیچارے والدیں جتنے بھی پڑھےلکھے کیوں نہ ہو ، بچے استاد کی بات کو ہی پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں۔ کچھ دن پہلے بیگم چھوٹے بیٹے کا کلاس ورک چیک کر رہی تھی جس میں بیشمار غلطیاں موجود تھیں ، استانی نے چیک بھی کیا تھا ، ان بیچاریوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ، کئی درجنوں اسٹوڈنٹس کا ھوم ورک تسلی بخش چیک کرنا بہت تھکا دینے والا کام ہوتا ہے ، اس لیے بسا اوقات غلطیوں کا پورا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ خیر بیگم نے اصلاح کرنے کی کوشش کی لیکن بیٹے نے ماں کی ایک نہ مانی ، ان کا ضد تھا ،چونکہ ٹیچر نے صحیح ٹک لگایا ہے اسلیے اس میں غلطی کی گنجایش موجود نہیں ۔ مجبوراً اگلے دن سکول جاکر متعلقہ ٹیچر سے مسز کی اور اپنی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے فتویٰ لکھوا کر لیے آنا پڑا تا کہ بچوں کو باوار کراسکے کہ والدین کی بات بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اور بچوں کو ان کی بات سننی بھی چاہیے۔
مختصراً اپنے معزز اساتذہ کرام سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس بڑھتی مادی دباؤ کے دور میں بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی، روحانی اور سماجی رویوں کے حوالے سے بھی تربیت ضروری ہے۔ تاکہ ہمارے اندر بڑھتا ہوا روحانی خلا کم سے کم ہو جائے اور ہمیں اس زندگی اور اگلی زندگی کے اختصار کا پتہ چل سکے ۔ کہتے ہیں کہ مغرب، جاپان اور دوسرے بعض ممالک میں بچوں کی ابتدائی پانچ سال کی عمر تک صرف اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے جس میں سچ بولنا ، کام کی عظمت ، حلال کمائی ، دوسروں کا احترام کرنا ، ارد گرد ماحول کو صاف ستھرا رکھنا وغیرہ شامل ہے ۔ اساتذہ کے حوالے سے ایک اہم نکتہ ، اچھا استاد وہ نہیں جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو ، بلکہ بہترین استاد وہ ہے جو بہترین کردار اور مناسب پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ ساتھ اپنے پیشے سے مخلص ہو۔ جو اساتذہ باصلاحیت تو ہیں مگر مخلص نہیں وہ دراصل اپنے اور خاندان کو دھوکا دیتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں ، میں نے ایسے اساتذہ اور ان کی اولاد کو زندگی میں دھکے کھاتے اور آزمائشوں سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ دوسری طرف وہ اساتذہ جو اوسط درجے کے حامل تھے ، مگر اپنے پیشے سے بہت ہی مخلص تھے وہ اور پورا خاندان کو پھلتے پھولتے اور باوقار زندگی گزارتے ہوئے دیکھا اور گزار رہے ہیں اور اولاد بھی بہت اچھے مقام پر پہنچ چکی ہیں۔ ماشاءاللہ۔
خدانخواستہ زندگی میں کوئی ایسی نوبت آجائے کہ اپنے بچوں کیلے دو میں سے ( معیاری تعلیم اور اچھی تربیت / اخلاق ) میں سے کسی ایک کو چننا پڑے، تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اچھی تربیت اور اخلاق کو چنوں گا، کیونکہ میں اپنے آس پاس بیشمار ایسے بوڈھے والدین سے ملا ہوں جنھوں نے سب کچھ قربان کرکے بچوں کو معیاری اور اعلیٰ تعلیم دلوائی ، بچے بڑی بڑی پوزیشنوں پر تو پہنچ گئے لیکن اتنے بڑے ہوگئے کہ والدین کو بھی بھول گیے ، اپنی مزہبی اور اخلاقی زمہ داری کو بھول گیے۔ بوڈھے والدین انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وجہ کیا بنی ؟ ان والدین نے بچوں کو معیاری تعلیم تو دلوادی لیکن اچھا اخلاق اور دین شناسی دینا بھول گیے۔ اور تو اور ایک بوڈھا ، ناتوان جوڈا جن کے چار بچے / بچیاں ولایت میں ڈاکٹر ، سافٹ ویئر انجیر ہیں ، کروڑوں کما رہے، پچھلے سال دونوں واش روم میں گر کر دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ والدین بیچارے تو جان سے گیے لیکن وہ بدبخت اولاد بھی جلدی مکافات عمل سے گزریں گی، اس میں بالکل بھی کوئی شک نہیں ۔ ایسی اولاد کیسے خوش و خرم رہ سکتی ہیں خواں احد پہاڈ جتنا سونا بھی کیوں نہ اکھٹا کیا ہو۔ یہ قانون فطرت ہے، دوسروں کو خاص کر بزرگ والدین کو دھتکار کر / دھکیل کر کوئی بھی خود سکھی نہیں رہ سکتا ہے۔
نہ خدا ملا ،نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے ، نہ ادھر کے رہے