گلگت۔بلتستان اور 70 سالہ محرومیاں تحریر : علی جاوید

گلگت۔بلتستان اور 70 سالہ محرومیاں


تحریر : علی جاوید 
ادھر کشمیریوں پہ ظلم باطل نے کیا لیکن
مسلمانوں نے لوٹی ہیں یہاں آزادیاں میری
امیر وقت سے کہ دو مجھے آئین دے ورنہ 
کسی دن لے کے ڈوبیں گے تجھے محرومیاں میری.
ہمارے آباؤ و اجداد نے بغیر کسی شرائط کے پاکستان سے الحاق کیا اور آج پاکستان نے ہماری محرومیوں کو دو بارہ کشمیر کے مستقبل سے مشروط کردیا اور ہمیں دوسرے درجے کے شہری قرار دیا اور جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہو گا اس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتنا ہوگا ۔ اور اگر مان لیتے ہیں کہ یو این او کی رائے شماری ہوتی بھی ہے تو آپ کو یقین ہے کہ ہم کشمیریوں کے حق میں فیصلہ کرینگے یہ ان کی بھول ہے۔
سب سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سمیت چیف جسٹس صاحب نے بھی گلگت بلتستان کا تفریحی دورے کے ۔ ہمارے چیف جسٹس صاحب نے بہت خواب دیکھا تھا کہ ہم ستھر سالا محرومی کا ازالہ کرینگے اور اسلام آباد پہنچتے ہی تحور بدلا ۔ شکریہ چیف جسٹس صاحب آپ نے ہماری محرومی کا ازالہ کیا ۔اور کچھ دن پہلے ایک اور سیاسی جماعت کا لیڈر بھی اپنی منجن بیچنے کے لیے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہؤا تھا اور اس صاحب کو اس بات کا بھی علم تھا کہ
گلگت بلتستان ایک بے آئین سرزمین ہے جس پر وہ آئین و قانون نافذ ہے جس کی تشکیل میں ‌اس کا کوئی کردار نہیں‌ رہا ہے جس کے نفاذ کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں‌ہے. اس لیے یہ علاقہ ایک آئینی بحران کا شکار ہے. کورٹس کا بنیادی کام آئین کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے مگر آئین پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں آئین پاکستان اور تعزایرات پاکستان اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ انسداد دہشت گردی سمیت ہر جکڑنے والا قانون استعال ہر اس شخص کے خلاف کیا جاتا ہے جو علاقے کے حقوق کی آواز اٹھائے

اور اس صاحب کے آنے کا مقصد بھی سیر و تفریح اور قومی میڈیا میں سستی شہرت کے علاؤ کچھ نہیں تھا۔ 
علاقے کے تقریبا ڈیڑھ سو نوجوان طلبہ، اساتذہ، صحافی، وکلا پر تقریبا ایک سال سے انسداد دہشت گردی کا دفعہ چار (شیڈول فورتھ) نافذ کیا ہوا ہے. مگر اس کے برعکس گلگت بلتستان کے مفلوج کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کے شہریوں پر نہیں ہوتا جس کے کئی نظائر موجود ہیں
اس دور میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران حقوق کے لیے احتجاجی سلسلے میں رفتہ رفتہ تیزی و شدت دیکھنے میں آئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہی وہ سارے عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصے کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔
ہر احتجاج اور تحریک کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان کے کسی بھی آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث محبت و وفاداری پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ مسائل کو فوری حل کرنے میں پاکستان ابھی تک لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔
آج اگر اس صاحب کو بھی ہماری محرومی کا احساس ہوتا تو اپنی تقریر سندھ سے لے کر نہیں آتا بلکہ صرف یہاں کے مسائل پر بات کرتا نہ کہ چاچا کے یو ٹرن پر ۔ان کو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ گلگت بلتستان میں بابا جان سمیت دیگر درجنوں قوم پرست سیاسی کارکن جیلوں میں قید ہیں ،سینکڑوں کارکن عدالتوں میں غداری اور بغاوت کے بے بنیاد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور کئی رہنماء جلا وطن یا روپوش ہیں،
چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں پبلک سروس کمیش نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کا کوٹہ مختص ہے۔ چیف سیکٹری سمیت تمام کلیدی عہدوں‌ پر وفاق براہ راست اپنے بیوروکریٹس تعینات کرتا ہے. جس کی حیثیت و کردار مقامی حکومت میں ‌ایک وائسرائے سے کم نہیں‌ ہوتا ہے.
داخلی خود مختاری اور مالیاتی نظام نہ ہونے کے باعث چین سے متصل سوست بارڈر کے محصولات سمیت تمام اہم محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ شاہراہ قراقرم، دریائے سندھ، دیامر بھاشا ڈیم اور سالانہ لاکھوں مقامی و بین الاقوامی سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے۔ حالانکہ ان سارے وسائل کا باقاعدہ رائلٹی علاقے کو ملنی چاہیے۔
اور ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے مدد آپ ڈوگرہ سے آزادی اس لیے حاصل نہیں کی تھی کہ آنے والی نسلیں حقوق سے محروم رہیں۔ یہاں کے وسائل پر ان کا حق نہ ہو۔ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رہیں۔ اور انجنیئرگ اود میڈکل کالج تو دود کی بات صرف ایک یونیورسٹی کا قیام عمل لایا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں تری جی پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔
حقوق نہ ملنے کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ کشمیر کاز کو جب تک حل نہ کیا جائے آپ کو حقوق نہیں ملنگے۔ جیسکی ہم نے ان کی آزادی چھین لی ہو۔ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا حصہ ضرور ہے یا بنا دیا گیا 
کشمیر اور گلگت بلتستان میں لسانی، تہذیبی، سماجی، سرحدی کوئی میل نہیں، سوائے اس کے کہ دونوں خطوں کے باسی ماضی میں کبھی غیروں کے زیر نگرانی تھے۔ یہی ایک رشتہ ہے اور یہ غلامانہ رشتہ ہے۔ دونوں خطے تقسیم ہند سے قبل ایک غلامانہ رشتے میں جڑے تھے، تقسیم کے بعد متنازعہ رشتے میں بندھ گئے۔

Post a Comment