ایک بار پھر سی-ایس-ایس کا دورہ تحریر: شجاعت شمالی

 ایک بار پھر سی-ایس-ایس کا دورہ

حالیہ دنوں میں سی ایس ایس 2023 کا فائنل رزلٹ جس میں گلگت بلتستان کے دو کنڈیڈیٹ کامیاب ہوئے۔ جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے اور اُن کے انٹرویوز بڑے وائرل ہو رہے ہیں۔ دونوں کو نوکری حاصل کرنے اور افسر شاہی cadre میں شامل ہونے پر مبارکباد لیکن اُن کو کامیاب ترین لوگ گردان کر اُن کے انٹرویوز وائرل کرنا میرے نزدیک ایک خطرناک عمل ہے۔ 

اِس بابت میں اپنا ذاتی تجربے کے بنیاد پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا، میں نے بھی اپنے تین چانس پورے کئے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ میں نے اپنی زندگی کے ۴،۵ قیمتی سال ضائع کئے ہیں۔ پہلا امتحان میں نے 2016 میں دیا جس میں میں نے خاطر خواہ 625 نمبر لئے اور انگلش گرائمر (Précis writing and Comprehension) میں رہ گیا تھا، بہت پزیرائی حاصل ہوئی اور میں اس دلدل میں دھنستا گیا جب تک اپنے تینوں چانس پورے نہیں کئے۔ ایک سال گیپ کرنے کے بعد 2018 میں دوسرا امتحان دیا اس بار بھی تقریباً 600 نمبر لئے لیکن اس بار English Essay میں رہ گیا۔ اس درمیان GBCCE-2017 میں کامیاب تو ہوا پر seat نہیں ملا۔ اِن امتحانات نے مجھے چھوٹا سا سلیبرٹی بھی بنوا دیا اور جوک در جوک “css aspirants” مجھ سے “رہنمائی” لینے لاہور میں ملنے لگے۔ 

پہلی بات بتانے کی یہ ہے کہ یہ امتحان آپکے انٹیلکٹ کا امتحان نہیں جس طرح سے اس کے متعلق مغالطے پھیلائے جاتے ہیں  بلکہ کسی کے منجمنٹ سکلز کا امتحان ہے۔ 12 میں سے ایک مضمون بھی ٹھیک تیار نہیں ہوا آپکی ساری “محنت” رائیگاں۔ اور اسے مقبول آم الفاظ میں bad luck کہہ دیا جاتا ہے۔تو پہلی بات یہ کہ یہ کوئی فکری صلاحیتوں کو جانچنے کا معیار نہیں طلبا اس امتحان کو سبھی کچھ نہ سمجھ بیٹھیں۔  

دوسرا اور اہم نقطہ: ہم کیوں اس امتحان کو اتنا اہم سمجھتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں؟ میری ناقص رائے کے مطابق سی ایس ایس کی معاشرے میں پبلسٹی بہت زیادہ ہے۔ میں خود اس کے لئے اتنا جذبہ کیوں لے کر بیٹھا تھا؟ میرے اندر آئن سٹائن، نائل بوہر، بو علی سینا بننے کا جذبہ کیوں نہیں تھا؟ یا اُن کے کاموں کی قدر کیوں نہیں تھی؟ اسکے پیچھے دو پہلو ہیں: ایک تو افسر شاہی کلچر کے اثرات اور دوسرا یہ کہ سی ایس ایس کی تیاری کرنے والی اکیڈمیز بزنس امپائرز بن گئیں ہیں۔ میں نے css کے بارے میں سنا تو تھا سکول لیول پر لیکن اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر تب پڑ گیا جب میں نے پہلی مرتبہ جہانگیر ورلڈ ٹائمز کی ماہنامہ میگزین میں کچھ “کامیاب” کنڈیڈیٹز کا انٹرویو پڑھا۔ آج جہانگیر ورلڈ ٹائمز نمبر ایک اکیڈمی ہونے کے ساتھ ساتھ “پبلشر” ہونے کا بھی “اعزاز” رکھتا ہے اور دھڑا دھڑ کاپی پیسٹ “کتابیں” چھاپ دیتا ہے۔ چونکہ اب کتاب کو تھوڑا بہت جاننے لگا ہوں اس لئے اُن کے میٹرئیل کو کتاب لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ سا جاتا ہے۔ یہاں پر میں یہ اقرار بھی کروں گا کہ اِن کی کتابیں css exam کے لئے کافی حد تک کارآمد بھی ہیں۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کے تمام بُک شاپز میں ان کی “کتابوں” کا انبار لگا ہوا۔ اس طرح اور کئی ساری اکیڈمیز اور “کتب خانے” مزے سے کاروبار کر رہے ہیں مثلاً Dogar Publishers, Caravan, KIPS, NOA وغیرہ۔ تو یہ بات طے ہو گئی کہ  css mania کے پیچھے فرسودہ کالونیل سوچ، بے جا تشہیر اور لوگوں کے کاروباری انٹریسٹ کار فرما ہیں۔

تیسرا نقطہ: جب کوئی افسر بنتا ہے تو ہم کیوں ناچ ناچ کر گُنگروں توڑتے ہیں؟ کیا یہ وہ افسر نہیں جو ہمیں دفتروں کے باہر بلا وجہ گھنٹوں خوار کرواتے ہیں؟ کیا یہ وہ نہیں (ماسوائے چند کے) جو عوامی اساسوں کو ذاتی ملکیت بناتے ہیں؟ کیا یہ وہ css qualified  لوگ نہیں جن کے بارے میں خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں اتنا لاکھ، کروڑ کے کرپشن میں پکڑا گیا؟ کیا کسی مفکر، سائنسدان، فلاحی ورکر کے بارے میں ایسا سنا ہے کبھی؟ نہیں تو یہ سب بننے کی تجسس میرے اندر کیوں نہیں پیدا ہوا؟ اس لئے ضروری ہے کہ بلا وجہ اس چیز کی اتنی تشہر ہم نہ کریں۔ چونکہ یہ امتحان سسٹم کا ایک حصہ ہے اس لئے نتائج کی خبر تک بات ٹھیک ہے۔ 

اس کی تشہیر سے گریز کرنا کیوں ضروری ہے میں reasons پیش کرتا ہوں:

۱- نوجوانوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگانا چاہئیے، وقت ضائع کرنے کے بعد اُن کو حوش آتا۔ میرے استاد محترم نامور دانشور و ترقی پسند رہنما آصم سجاد اختر کہتے ہیں css کے زرئعے محض 200-300 لوگ نوکری لے سکتے ہیں ساری قوم نے تو نہیں لگنا ہوتا لہاذا نوجوانوں کے لئے روزگار پیدا کیا جائے اس کے پیچھے نہ لگا دیا جائے۔ 

۲- نوجوانوں کا سی ایس ایس کے پیچھے لگ جانا اور فکری و سائینسی گروتھ کی کوشش نہ کرنا المیے سے کم نہیں۔ کیونکہ civil servants ہمیں ہماری موجودہ جمود سے نہیں نکال سکتے بلکہ حقائق بتاتے ہیں وہ ہمیں اس میں دھکیلتے ہیں۔ 

۳۔ اس چیز کو چمکتے سونے کی طرح پیش کر کے نوجوانوں کو اندھا کر دیا گیا ہے، جس سے پوچھو سی ایس ایس دینا اس نے۔ بعد میں جب نہیں ہو پاتا ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور ایسے مجنونوں کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے۔ ایک ایسے ہی مجنوں نے یہ داستان لکھی ہے۔ 

لوگ پہلے سی ایس ایس پاس کرنے والوں کی خبریں سوشل میڈیا پر لگا لگا کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ پھر ماتم بھی کرتے ہیں کہ یہی افسر لاکھوں ، کروڑوں  مالیت کی گاڑیوں پر اپنے گھر کے لئے بجری سپلائی کرتے ہیں۔


تحریر: شجاعت شمالی

Post a Comment

Previous Post Next Post