نقل کا بڑھتا ہوا رجحان اور ہمارے معاشرے پر اثرات تحریر منظور داریلی

نقل کا بڑھتا ہوا رجحان اور ہمارے معاشرے پر اثرات 

تحریر منظور داریلی

گلگت بلتستان  بھر کی طرح  دیامر داریل میں بھی پڑھائی کے بعدطلباء کی کار کردگی کی تشخیص کےلئے امتحانات لیے جاتے ہیں، جس کے ذریعے ان کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے داریل میں گزشتہ کئی برس سے امتحانی مراکز میں نقل کے رجحان میں کافی اضافہ ہو ا ہے، جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے اور لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے رحجان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ نقل کر کے نالائق اور تعلیم میں عدم دلچسپی رکھنے والے طلباء زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ذہین طلباء پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے، ان میں مایوسی ،غم اور غصے کے جذبات جنم لیتے ہیں

کچھ برائیاں ایسی سنگین نوعیت کی ہوئی ہیں کہ  ان میں کئی برائیا  ں جمع  ہوجاتی ہیں۔ ان برائیوں سے معاشرے میں فتنے جنم لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ فساد سے بھر جاتاہے۔ اور معاشر ے کا ہر فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔دور حاضر میں  ایک برائی ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان ہے ۔اس کی ابتداء تو طالب علم سے ہی ہوئی ہے مگر بغور دیکھا جائے تو اس کی جڑیں والدین کی ناقص تربیت اور اساتذہ کی اپنی مقدس پیشے سے منہ پھیرنا سے جاکر ملتی ہیں۔

جب تعلیم کو نمبرز اور ڈگری  کے گر د محدود کردیا جائے اور قابلیت اور مہارت کے حصول کو نظر انداز کردیا جائے، تو طالب علم کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھ جاتی ہے یا والدین بٹھاتے ہیں کہ اگر نمبر کم ہوئے تو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں ملے گا اور ڈگری نہیں مل سکے گی،  اب طالب علم کی تمام تر محنت   اور وقت صرف اور صرف نمبروں کی حصول میں صرف ہوتاہے۔ اب طالب علم چاہے کسی بھی طریقہ استعمال کرے ؟ اس کو مطلوبہ نمبر  حاصل کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے ۔ یہ با ت صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ والدین اساتذہ بھی اس میں شامل ہوجاتےہیں۔ یعنی نقل کرانے میں اپنے ہونہاروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے امتحانی مراکز تک جا پہنچتےہیں۔وہاں بیٹھے اساتذہ جو ماضی میں اس ناثور کیخلاف بھنگڑے مارتے مارتے نہیں تھک رہے ہوتے تھے وہ بھی انکو اس بیماری سے نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے ہوتے ہیں اور سونے پر سہاگہ جب سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتو کیا بات ہے؟

اس تیزی سے بڑھتے ہوئے نقل کے رجحان نے معیار تعلیم کا جنازہ نکال کررکھ دیا ہے۔کیا میڑک ؟ کیا انٹر؟ اور کیا اعلیٰ تعلیم؟   تمام کے تمام ہی اس برائی میں مبتلا ہیں۔ اس خرابی کے نتیجے میں ذہین اور با صلاحیت طلبہ کا استحصال ہوتاہے،   میرٹ کا  قتل عام ہوتاہے۔  اس ایک برائی کے اندر  سب سے بڑی برائی  جھوٹ، بددیانتی،  ظلم شامل ہیں۔یہ کبیرہ درجے کے گناہ ہیں،  جن کو آج کل سمجھا نہیں جارہا ۔یا پھر نظر انداز کیا جاتاہے۔ بلکہ اس ناثور کیخلاف جانے والوں کیخلاف اپنی چیلوں کو انکے پیچھے لگایا جاتا ہے انکو دھمکیاں دی جاتی ہیں کیا ایسا ٹھیک ہوگا ہمارا معاشرہ؟ کیا ایسے ہی کامیاب ہونگے ہمارے بچے اور بچیاں ؟کیا امتحانی مراکز سے نکل جیسا ناثور کا خاتمہ ایسا ہی ممکن ہیں؟ 

ہم جان بوجھ کر اپنے آشیانے کو آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں،  ذرا  اندازہ کیجئے کہ جب اپنے علاج کے سلسلےہم خودہی کسی ایسے  ہی ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ گئے تو کیا ہوگا ہماری صحت کا؟ اور جب ایسے ہی کسی انجینئر سے ہم پل ، سڑکیں ڈیم اور عمارتیں بنوائیں تو ایسی تباہی کے ذمّہ دار کون لوگ ہوں گے؟کیسے ترقی کریگا یہ خطہ کیسے ترقی کریگا ہمارا معاشرہ کیسے ترقی کریگا یہ خطہ 

اس طرح کے لوگ جب اعلیٰ ڈگریاں لے کر اداروں میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کےلیے اعلیٰ عہدوں پر اپنی ذمّہ داریا ں ادا کریں گے ،تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا ملک و قوم کی خدمت کریں گے ،بلکہ ملک و قوم کو ان کی خدمت کرنا پڑے گی۔ جو کہ  اجکل ہر ادارے میں ہورہے اس طرح کے افراد صرف چھوٹی نوکریوں اور ذمّہ داریوں پر نہیں بلکہ اب تو خیر سے صوبائی ،قومی اسمبلوں اور سینیٹ کی نشستوں پر  براجمان ہیں اور ہر آن  کیا کیا گل کھلارہے ہیں؟عوام پہلے تو لمبی لمبی قطاروں میں دھکّے  کھاتی ہے، اب تو پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے ۔

ضروری ہے کہ ہم اپنے ہونہاروں کی تربیت کی طرف توجہ دیں  ایمانداری اور دیانتداری  کو ان کی شخصیت کا حصّہ بنانے کی پوری کوشش کریں، جگہ جگہ اس ناثور کیخلاف فیس ٹو فیس سیشنز کروائیں اس کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ اجتماعی خرابیاں اجتماعی کوششوں سے دور ہوتی ہیں۔لہٰذا ہم سب کو اس پورے نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنی چاہیئے ۔اسی نظام کے اندر وہ  خرابی کہ جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیاہے، تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔اسی نہر کے پانی سے یہ ببول کے درخت اور جھاڑیاں سیراب ہوکر نشونما پارہی ہیں اسے ہم سب نے مل کر ختم کرنا ہوگا وگرنہ ہمارا معاشرہ ایسا ہی رہیگا۔

ہرشعبہ زندگی میں ترقی اورکامیابی کےلئے علم کی ضرورت ہوتی ہے،اس کے لیےملک کے معماروںصحیح تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر بنیاد کھوکھلی رہ جائے تو زندگی متاثرہوسکتی ہے، جو شخص تعلیم سے کورا ہوگا،وہ بھلاملک وقوم کی ترقی کا سہاراکیوں کر اور کیسے بنے گا، لہٰذا طلبہ کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ اپنی بچوں اور بچیوں کی اچھی تربیت کرنے کے لئے ہر تعلیمی اداروں میں فیس ٹو فیس سیشنز کروائیں 

نسل نو کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر وہ ز یادہ نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سال کے اوّل دن سے محنت اور پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں،اگر روزانہ آدھا گھنٹہ بھی ایک مضمون کو دیا جائے، تو امتحان کےدنوں میں نہ رات بھر جاگ کر پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی کسی کے سامنے فریاد کرنےکی نوبت پیش آئیگا اور نہ ہی نقل کرنے کی۔کامیابی  چاہتے ہیں، تومحنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں،یاد رکھیں قابلیت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ ڈگریاں محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہوں تو ملک وقوم کی عمارت بلند اورمضبوط ترہوگی۔ نقل کی بہ دولت ملنے والی  سندعملی زندگی میں کسی کام 

Post a Comment

0 Comments