فلک،عدالت اور عوام
۔تحریر عظمیٰ اختر لون۔
1۔فلک نور کے کیس کی سماعت گلگت بلتستان کی عدالت میں ہونی چاہئے ۔
2۔بچی کی عمر کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ رکھا جائے۔
3۔قانون کی پاسداری کرتے ہوئے نکاح کو کالعدم قرار دے کر بچی کو یا والدین کے حوالے کردیا جائے یا پھر حکومت شادی کی متعینہ عمر کی حد تک بچی کو اپنی تحویل میں رکھے۔۔
عوام کی یہ کاوش تو رنگ لے آئی کہ فلک نور کو عدالت میں پیش کیا گیا ۔ اب عدالت کے پاس شادی کے مصدقہ ہونے کے تعین کے لئے تین راستے تھے۔
1۔پاکستانی قانون
2۔شریعت لاء
3۔میڈیکل بورڈ کا تجزیہ ۔
اول الذکر صورت میں دیکھا جائے تو آئین پاکستان میں شادی کے لئے لڑکی کی عمر اس شرط کے ساتھ کم سے کم اٹھارہ سال ہو کہ بچی قومی شناختی کارڈ کی حمل ہو ۔
ثانی الذکر صورت میں شرعاً نکاح کے درست ہونے کے لئے لازم ہے کہ بچی کی عمر کم سے کم سولہ بشرطیکہ ولی یا سرپرست کی اجازت شامل ہو۔ زیر قلم بحث میں فلک نور کے عمر کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ جس کے مطابق بچی کی عمر ساڑھے چودہ سال نکلی۔ اس صورتحال میں بچی کا نکاح ح شرعاً اور قانوناً فاسد قرار دے کر بچی کو یا والدین کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا یا عدالت اسکو حکومت کی تحویل میں دیتی۔ نکاح کے فاسد ہونے کی صورت میں نکاح خواں اور پھر گواہان پر بھی مقدمہ ہو سکتا تھا۔عدالت نے بجائے ان تمام قانونی لوازمات کو پورا کرنے کے ایک انو کھا انداز اپنا لیا ۔ عدالت چودہ سالہ فلک نور کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو اختیار دیا کہ وہ جس فریق کے ساتھ چاہے چلی جائے ۔ یہاں تک تھا قانون اور عدالت کا پس منظر ۔ اب معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ عوام الناس میں ایک تشویش کی لہر پھیلا چکا ہے ۔ اس سے قبل بھی گلگت بلتستان میں متعدد ایسے واقعات ہو چکے ہیں جہاں پہ اس طرح کے واقعات میں غیرت کے نام پہ بہت سے لوگ قتل ہوچکے ہیں ۔ عدالتی فیصلے سے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے باشعور افراد میں تشویش پھیلائی ہے ۔اس فیصلہ سے پیدا ہونے والی تناؤ کو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سپریم اپیلیٹ کورٹ۔ ہمیں امید ہے اپیلیٹ کورٹ عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اور قانونی شقوں کو پورا کرتے ہوئے عوام کے اندر سے مایوسی کو ختم کرے گی۔
شکریہ ۔
0 Comments