معاشرے میں یوتھ کا کردار تحریر : جہانذیب داریلی

معاشرے میں یوتھ کا کردار

   تحریر: جہانذیب داریلی

بلاشبہ کسی علاقہ یا ملک کی معاشی،معاشرتی

 ،سیاسی،اخلاقی اور تعلیمی ترقی میں یوتھ کا اہم کردار ہوتا ہے شرط یہ ہے کہ ان کے اندر مثبت سوچ ہو، مخلصی ہو۔ درد ہو، ضد انا سے پاک ہو ، اپنا کردار ٹھیک ہو یا کرنے کی کوشش ہو, سب کیلئے سوچ برابر ہو، تکبرانہ فکر نہ ہو، تعصب سے بالاتر ہو، اپنے لئے جو سوچتا ہے وہ دوسرے کیلئے بھی سوچے۔ کسی کام کیلئے جب قدم بڑھاتے ہیں تو اس کام کو آسان بنانے کیلئے کوئی سوچ یا کردار ادا کیا ہو، خود ایک کامیاب شخصیت کے مالک ہو، خدا ترس ہو، تعلیم یافتہ ہو، نڈر ہو، خوف خدا ہو تب جا کر کہیں آپ کو آپ کو آپ کے کردار سے مثبت تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ اس سے بھی بڑھ کر صرف غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک کہنے کی جرات ہو۔ اور مجھے سے کوئی کمی ہوئی ہو میں اس غلطی کو ما ننے کیلئے تیار ہوجاوں تب ممکن ہے کہیں چراغ نظر آجائے۔ ہر کوئی اپنی دفاع میں کھڑے ہو جائے اور پوری فوج تیار کریں کہ میں نے جو کچھ کہا وہ بلکل درست ہے ایسی سوچ سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔  اور بہت ساری یوتھ فارغ بیٹھی ہوئی ہے کوئی روزگار کی فکر نہیں ان کو interprenorship ,کی طرف لانا ہوگا تاکہ علاقے میں امن ہو فتنے فساد کم ہو عزت کی زندگی گزار سکے ، فارغ انسان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا ہے نہ اس کی سوچ مثبت ہوتی ہے

             جہاں تک ہمیں تجربہ ہے ہمارے علاقے میں ذہنی غلامی ہے ہم ہمیشہ شخصیت پرستی کرتے ہیں نظریہ پرست نہیں شارٹ کٹ کے قائل ہیں لانگ سوچ سے عاری ہیں۔ فارمولہ اپنے لئے فائدہ مند ہے تو درست ہے ورنہ غلط ہے۔ میں تیرے فائدے کا ہوں اور ہاں میں ہاں ملاتا ہوں تو تیرے لئے پیر ہوں نہیں تو میں ٹھیک آدمی نہیں۔ 

اس علاقے کو بہتر بنانے کیلئے کوالٹی ایجوکیشن واحد حل ہے جس کیلئےصرف اساتذہ کا کردار ٹھیک ہونے سے مسلئے کا حل نہیں بلکہ علماء، سیاستدان، نوٹ ایبلز، عوام، ادارے، جوان،  کمیو نٹی طلباء اور خصوصا والدین سب ملکر کمزوریوں  کو ختم کر کے بہترین تعلیم کی طرف طلباء کو گامزن کرا سکتے ہیں اکیلے کوئی طبقہ کچھ نہیں کر سکتا اس کیلئے مل بیٹھ کر حل نکالنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر دن پانی  سے لیکر بجلی تک، روڈ سے لیکر ہسپتال تک ، مزدوری سے روزگار تک ، پڑھائی سے لیکر امتحان تک کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے اس کا اسانی سے حل نکالنے کے بجائے مشکل کی طرف جاتے ہیں جو کہ نیک شگون نہیں۔ آئے سب اپنی غلطی کو تسلیم کریں سارے سٹیک ہولڈرز مل بیٹھے اور مسائل کا  دیرپا حل ڈھونڈے۔ ہم سب پہلے خود کو ٹھیک کرینگے دوسرے خود  بخود اثر لینگے ہم ہمیشہ دوسرے کو ٹھیک کرنے کے چکروں میں وقت ضائع کرتے ہیں اپنی باری آئی تو فیل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے ہماری بات پر غور نہیں کرتے

میری سوچ جو کہ درست نہیں بھی ہو سکتی  یا میں اعمال میں کمزور بھی ہو سکتا ہوں تسلیم کرتا ہوں اس کیلئے معذرت خواہ ہوں 

جہانذیب داریلی

Post a Comment

0 Comments