دنیا میں دکھ ، تکالیف اور مصبتیں
کیوں پیش آتی ہیں ؟
تحریر : علی مدد
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں :-
" ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے... "
( سورتہ البلد )
ہر روح جو دنیا میں آتی ہے وہ مشقت، دکھ ، تکلیف کے مرحلے سے ضرور گزرے گی، یہ قدرت کا قانون ہے ۔ البتہ وقت ہر ایک کیلے مختلف ہوسکتا ہے۔ بعض بچپن میں ، دوسرے جوانی اور باقی زندگی کے آخری حصے میں اپنے اپنے حصے کا مشقت ، دکھ ، تکلیف کا ذائقہ چک لیں گے۔ تکلیف اور مصائیب کی نوعیت جدا جدا ہوسکتی ہے جس کا تعین کرنا خدائیے بزرگ و برتر کی اپنی صوابدید پر ہے، کسی کو دے کر آزماتے ہے تو کسی سے چھین کر ، یا عطا ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ دعویٰ کرسکتا ہو کہ وہ پوری زندگی میں کبھی بھی دکھی نہ رہا ہو، پریشانی، رنج و الائم سے نہ گزرا ہو، خواں وہ کتنا ہی بڑا ،بااثر اور طاقت والا ہو۔ زندگی کے نشیب و فراز سے ہر کسی نے گزرنا ہے، لیکن اسے سمجھنے ، اپنا ردعمل دینے اور ان مصائب سے نمٹنے کی صلاحیت ہر انسان کے اندر مختلف ہوتی ہے۔ ایک شخص تنہائی میں بھی بیٹھ کر آرام محسوس کرتا ہے، خوش رہتا ہے، تو دوسرا دوستوں کے جھرمٹ میں بھی خود کو تنہا اور دکھی محسوس کرتا ہے۔ اس کی اپنی بہت ساری وجوہات ہیں، جس میں ماحول کا اثر بنیادی ہے، لیکن یہ ایک علیحدہ بحث ہے آج کا موضوع نہیں ہے۔
مصیبت یا سزا کی سب سے بڑی قسم جس سے عام طور پر ہم آگاہ نہیں ہوتے ہیں یا بظاہر نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یہ غیر مرئی ہوتی ہے، اس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے ، یعنی اللّٰہ کی طرف سے انسان کو ان کے نفس ( امارہ ) کے رحم و کرم پر چھوڈ دینا ہے ، خدا ایسے شخص سے منہ موڑ لیتا ہے ، تاوقتیکہ اسے دی ہوئی مہلت پوری ہوجائے اور دائمی سزا کا مستحق ٹھرے۔ یا دوسرے لفظوں میں توفیق خداوندی کا سلب ہونا ہے، ایسا بد نصیب شخص دس پالتو کتے تو پالتا ہے ( نفس امارہ کو خوش کرنے کیلے ) لیکن خدا کی خوشنودی کیلے کسی یتیم ، مسکین، بھوکے کے منہ میں نوالہ نہیں ڈالتا ہے۔ قرآن کریم ایسے لوگوں پر افسوس صد افسوس کرتا ہے جو عارضی دنیا کی خاطر دائمی دکھ اور رنج قبول کرتے ہیں۔ اس کا دلچسپ پہلو ایک اور بھی ہے، یعنی دنیا میں دکھ ، تکلیف ، پریشانی کا نہ ہونا بھی ایک سزا ہے۔ واقعہ مشہور ہے ، نبی کریم کو ایک صحابی جو صاحب ثروت تھے کھانے پر مدعو کیا تھا ۔ کچھ صحابی بھی ساتھ تھے، جب گھر پہنچے تو دیکھتے ہیں دیوار پر ایک قیمتی شیشے کا فانوس رکھا گیا تھا، نبی کریم نے فرمایا :-
اسے ہٹا دو یہاں سے، گر جایے گا ، اس شخص نے جواب دیا کہ یا نبی؛ نہیں گرے گا۔ نبی کریم نے استفسار کیا! کیوں نہیں گرے گا ؛ وہ تو گرنے والا ہی ہے۔ اس شخص نے جواب دیا ، یا نبی کریم ، مجھے زندگی میں کبھی کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔
نبی کریم نے صحابہ سے فرمایا ! اٹھو، چلو یہاں سے ، اس شخص کے گھر مزید نہیں ٹھرناا ہے ، اسے رب نے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ، اللّٰہ اس سے ناراض ہے، کہیں ہم بھی اللّٰہ کی ناراضگی اور غصب کے زد میں نہ آجائے۔ اللّٰہ اکبر۔
اس پیپر میں ہم ان وجوہات یا ذرائع کو جاننے کی کوشش کریں گے جو اس دنیا میں تکلیف، آفتیں، حادثات کا سبب بنتے ہیں ۔ پھر ان کے تدارک کے حوالے سے بھی کچھ فرمودات اپنے قارئین سے شئر کریں گے۔
اس کی ایک بڑی وجہ تو خود قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :-
" اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف ، بھوک ، مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ، ( اے حبیب ) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیں"۔
( البقرہ ،2 : 155)
یعنی تکالیف اور دکھوں کا ایک خاص حصہ اس دنیا میں بطور آزمائش ہمارے اوپر نازل ہوتا ہے، چونکہ ہم اس دنیا میں آیے ہیں ، اللّٰہ چاہتا ہے انسان کو آزمایا جایے ،تاکہ جو کامیاب ہوتا ہے مزید نعمتوں کا حقدار ٹھریے اور ناکامی کی صورت میں عبرت حاصل ہو ۔ عام زندگی میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک معمولی سی پوزیشن کیلے بھی ٹیسٹ کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ، کامیاب امیدوار کو نوازا جاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے اس کیلے بھی سبق کا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے اللّٰہ کے مقرب بندے ہی گزرتے ہیں، یعنی انبیاء ، پھر اوصیاء/ آئمہ کرام اور اولیاء اللہ پھر ان جیسے بندے۔ صرف نبی کریم کی زندگی ہی لیجیے ، یتم پیدا ہوتے ہیں ، باپ ،ماں، دادا کے بعد مشکل وقت کا سہارا اور رفیق، حضرت خدیجہ بھی دنیا سے چلی جاتی ہے ، ابولہب اور ابو جہل جیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی اذیتیں برداشت کرتے ہیں، صفر طائف میں لہولہان کر دیے جاتے ہیں، کوڈا کرکٹ پھینکا جاتا ہے، اپنے سے کئ گناہ زیادہ اور مضبوط دشمن سے جنگیں لڑتے ہیں ، شعیب آبی طالب کا واقعہ پیش آتا ہے، ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، لخت جگر شہزادے دنیا سے چلے جاتے ہیں، شب ھجرت موت اردگرد منڈلارہی ہوتی ہے، مجنوں ،اور جادوگر کے طعنے ملتے ہیں ، پھر بھی صبر کرتے ہیں ، اللّٰہ کے مقرب ٹھرتے ہیں اور مقام محمود پر فائز ہو جاتے اللہ اکبر ۔ باقی پیغمبروں کے ساتھ بھی کم و بیش ایسا یی ہوا، جیسے ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا جاتا ہے، اکلوتے بیٹے اسمعٰیل کی قربانی مانگی جاتی ہے وغیرہ۔
کہتے ہیں کہ اللّٰہ کے سب سے مقرب / الولعزم پیغمبر
( حضرت محمد، حضرت موسیٰ، عیسیٰ، ابراھیم اور نوح ) سارے چھوٹی عمر میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہوگیے ۔ حکمت یہ تھی کہ رب چاہتے تھے کہ دنیوی باپ کا پیار بھی رب کریم ہی سے ملے ، سبحان اللہ۔ اللّٰہ کی کیا کیا حکمتیں اور ان کے پیچھے راز پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ روئے زمین پر جو آزمائشیں یک مشت، اکھٹی کسی پر نازل ہوئی ہیں تو وہ نبی کریم کے پیارے نواسے امام حسین علیہ السلام اور ان کی آل ہے۔ سابقہ انبیاء اور دیگر پر جو آزمائشیں انفرادی طور پر نازل ہوئی تھیں، کربلا کے معصومین پر وہ ساری اکٹھی نازل ہوئیں۔ علامہ اقبال اسی کی طرف اشارہ کرتے ہویے فرماتے ہیں :-
"غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل "
آزمائش کے حوالے سے ایک بات بہت ہی اہم ہے جس کا ہم سب کو ضرور ادراک ہونا چاہئیے تاکہ آزمائشوں کا بوجھ تھوڈا سا ہلکا محسوس ہو ، میرا اشارہ قرآن کی اس آیت کی طرف ہے جس کا مفہوم ہے / ربالعزت فرماتے ہے:-
" بعید نہیں کوئی چیز آپ کو ناپسند ہو ، حقیقتاً اس میں آپ کی بھلائی پوشیدہ ہو ، اور بعض چیزیں بظاہر آپ کو اچھی لگتی ہیں ٫ لیکن حقیقتاً اس میں آپ کے لیے بھلائی نہ ہو ، تم نہیں جانتے ، اللّٰہ جانتا ہے " بخدا رب العزت سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہے کہ کونسی چیز ہمارے لیے بہتر ہے اور کون سی نقصان دہ۔ اپنی زندگی میں کئی دفعہ ایسا ہوا، اللّٰہ کے فیصلے بظاہر مشکل اور گراں گزرے لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ میرے حق میں اس سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا تھا، سبحان اللہ۔
قرآن میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا واقع تو آپ نے سنا اور پڑھاہی ہوگا ، خصوصاً خضر کا بچے کو مار دینا، کشتی کے سوراخ کردینا پھر حضرت موسیٰ کو ان واقعات کے پیچھے حکمت سے آگاہ کرنا اس بات کی دلالت کرتا ہے ،اللّٰہ کے ہر کام میں حکمت ، بھلائی اور خیر ہی خیر ہے بظاہر وہ تکلیف دہ اور کانٹوں بھرا ہی کیوں نہ ہو۔
اللّٰہ تبارک وتعالی وقتاً فوقتاً اپنے بندوں کی آزمائش کرتے رہتے ہیں۔ اللّٰہ فرماتے ہے :-
" کیا یہ لوگ اس گمان میں ہیں کہ اتنی سی بات پر چھوڈ دیے جائیں گے کہ، کہیں ، ہم ایمان لائے ، اور ان کی آزمائش نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔اللہ ضرور ( تمھاری بھی آزمائش کرے گا ) دیکھے کا سچوں کو اور ضرور دیکھے کا جھوٹوں کو ۔ ( العنکبوت، 3:2)
مندرجہ بالا ایات اور بہت ساری دیگر آیتوں اور احادیث ( جن کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے موضوع کی طوالت کی وجہ سے ) ایک چیز بالکل واضح ہو جاتی ہے ، ہر شخص ،بالخصوص اہل ایمان آزمائشوں سے ضرور گزریں گے ، صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خوشخبری بھی سنا دی ہے۔ یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اللّٰہ صابرین کو دوست رکھتا ہے ، صبر کرنے والوں کو اس دنیا میں بھی اجر اور اگلے جہاں میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے صبر اور ایمان کے درمیان تعلق کو انسانی سر کی مثال دی ہے ، اگر جسم پر سر نہ ہو تو سر بریدہ جسم کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ صبر کے بغیر ایمان کی بھی یہ حالت ہوتی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر ہمیں ہر آزمائش میں صبر اور اس کے پیچھے موجود حکمت کو سمجھنے کی توفیق عطا کریں ، آمین
آزمائش کے علاؤہ تکالیف ، دکھ و پریشانی کے اور بھی وجوہات ہیں، ائیں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم سورس،علت و معلول کا ہے یعنی۔ Cause & Effect ۔
اس خدائی قانون کے مطابق دنیا میں انسان جو بوتا ہے کل وہی کاٹے گا۔ گندم والا گندم اور جو والا جو۔ مولانا رومی کے مطابق ہم کسی کے ساتھ اچھا یا برا کرتے ہیں ، دونوں کا اثر ہم پر خود بھی پڑتا ہے، روحانی ، جسمانی اور عقلی لحاظ سے ، البتہ وقت ، شکل اور انداز مختلف ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض دفعہ ہم اس کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں اور دھوکے میں رہتے ہیں کہ اللّٰہ نے ہمیں پکڑا نہیں۔ بقول قرآن کریم ، اللّٰہ بعض دفعہ رسی ڈھیلی چھوڈ دیتا ہے تاکہ حجت پوری ہو ، جیسے عصر حاضر میں بہت سے انسان درندگی کے باوجود آپ کو دنداناتے پھرتے نظر آتے ہیں، بظاہر ایسا لگتا ہے ان پر کسی کا اختیار نہیں ہے، اللّٰہ کے ہاں ان کیلے ایک خاص وقت مقرر ہے ، جب وقت پہنچتا ہے تو ایک ساعت نہ آگے اور نہ پیچھے ، جیسے نمرود کے ساتھ ہوا ۔ ان میں سے بعض تو اس دنیا ہی میں مکافات عمل سےگزر رہے ہوتے ہیں ، زرا آنکھیں کھول کر ان چہروں پر نظر تو دوڑائیں، نحوست اور بے بسی صاف نظر آیے گی اور اولاد بھی اسی راستے پر چل پڑتی ہے یعنی صدقہ جاریہ کے راستے بھی مکمل بند۔۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہم کسی کی زندگی جہنم بنا کر خود گل نرگس چننے کی تمنا کریں ۔ قرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ، کان کے بدلے کان، اس کا مطلب کانٹے اور پھول کے بدلے بھی کل وہی کچھ ملے گا یہ قانون فطرت ہے۔
اس سب کا مداوا کیا ہے ؟
جو تکالیف اور دکھ ہمارے شامت اعمال کی وجہ سے ہمیں پہنچتے ہیں ، سبب، یعنی اعمال بد سے بچنا چاہیے ۔ اگر ہم سے کوئی غلطی ، گناہ ہو بھی چکا ہے تو اس کا تدارک یہ ہے کہ توبہ کرکے دوبارہ نہ دھرایا جائے ،اور جس کے ساتھ ظلم ، زیادتی ہوئی ہے اس سے معافی مانگی جائے ، اگر حیات نہ ہو تو اس کے خاندان، اولاد سے معافی طلب کی جاسکتی ہے ، اگر یہ بھی نہ کر سکو تو مرحوم کے ایصال ثواب اور روح کیلے دعا اور صدقہ ضرور کیا جائے ، انشاللہ، اللہ پاک معاف کردیں گے اور اپنی مشکلات ، دکھ درد میں کمی آئیں گی ۔ اس سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی میں حقوق العباد کی کتنی اہمیت ہے، خدانخواستہ کچھ ہوجائیے تو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔اگر حقوق اللہ میں کوئی کمی ہو تو اللہ غفور الرحیم ہے معاف بھی کردےگا لیکن انسان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس مظلوم سے ضرور ڈرنا چاہیے جس نے اپنا کیس / اپنے ساتھ ہوا ظلم اللہ کے سپرد کیا ہو۔ سب سے بڑا ظلم جو انسان کر بیٹھتا ہے وہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے ، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے :-
" اے میرے بندوں جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔۔۔۔۔۔( الزمر :53) یہاں ظلم سے مراد اللّٰہ جو سراپا نور اور روشنی ہے اس سے منہ موڑ کر اندھیرے میں چلیے جانا ہے، کثرت گناہ ہے، انسان گناہ اور ظلم کا ارتکاب جہالت کی وجہ سے ہی کرتا ہے، اگر اسے یہ ادراک ہو جایے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے کوئی زات اسے دیکھ رہی ہے اور بروز قیامت سب کچھ سامنے رکھ دیا جائیے گا ، کبھی برائی کی طرف نہیں جائیے گا ۔ یہ سب الہی نور سے منہ موڈ نے کا نتیجہ ہے۔ چونکہ دین اسلام سراپا رحمت ہے ، اللّٰہ نے رحم اپنے اوپر فرض کیا ہے ، جو بھی توبہ کرکے لوٹے گا تو بخشا جائے گا انشاللہ۔
کیا تکالیف، مصیبتیں اور دکھ، درد کی کوئی تیسری وجہ بھی ہوسکتی ہے ؟ کیوں نہیں، آج ہم آپ کو بتادیتے ہیں۔
ایک بچہ پیدا ہوتے ہی یتیم ہو جاتا ہے، کینسر جیسی موذی مرض کا شکار ہوتا ہے ، یا اور کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے ، آپ اسے کیا سمجھائیں گے ، یہ کہ بیٹا تم بہت ہی گناہگار ہو اسلیے سزا کے مستحق ٹھرے ، یا یہ کہ اللّٰہ کی طرف سے آزمائش ہے، وہ تو بولیے گا میں نے تو ابھی ابھی آنکھیں کھولی ہے، کیسے گناہ؟ اور کیسی آزمائش ؟ تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ دکھ ، پریشانی اور مصیبتوں کا ایک تیسرا سورس بھی ہے ، وہ ہے قدرت کے قوانین Laws of Nature . اس کائنات میں نظام ہستی چلانے کے لیے اللّٰہ نے کچھ قوانین بنا رکھے جن کو خود اللّٰہ بھی عام طور پر نہیں چھیڑتےہیں ۔ مثلآ کشش ثقل کا قانون تو موجود ہے ، لیکن کوئی شخص دسویں منزل سے چھلانگ لگادیں، اور یہ دعویٰ کرے چونکہ میں مسلمان ہوں اور میرے اوپر اس قانون کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے ، تو ایسا ممکن نہیں۔ اسی طرح گولی کا کام جسم کو چیرتی ہوئی پار نکلنا ہے ، خواں آگے لیاقت علی خان ہو، نیوزیلینڈ کے مسلمان ہو جنھیں مسجد میں شہید کر دیے گیے یا اور کوئی ، گولی نے اپنا کام کرنا ہے۔ اسی طرح آگ کی اپنی فطرت ہے، جو بھی ہاتھ لگایے گا جل جایے گا۔ کیونکہ قانون فطرت کے خلاف ورزی کام ہوا ہے۔ اس کے علاؤہ اس دنیا میں بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جس میں رب کی مرضی شامل نہیں ہوتی ہے، پھر بھی وہ کام وقوع پذیر ہوتے ہیں، انسان کو عطا کردہ قوت Free Will کی وجہ سے۔ جیسے اس دنیا کے ایک حصے میں گندم کی فصل اتنی زیادہ ہوتی ہے، مارکیٹ قیمت برقرار رکھنے کیلے اسے ضائع کر دیا جاتا ہے ، جبکہ اس دنیا کے دوسرے حصے میں لوگ بھوک کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ آپ بتایے ، کیا اللّٰہ نے ایسی دنیا چاہتے ہیں یا پلان کیا تھا۔ بہت دور نہیں اپنے ہی ملک پر نظر دوڑائیے ، کیا سب کچھ ویسے ہی ہیں جیسے اللّٰہ چاہتے ہیں ، تو آپ سب کہیں گے بالکل بھی نہیں۔ یہاں تو صبح و شام ظلم و بربریت ، ناانصافی کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس دنیا میں لاکھوں لوگ کثرت خوراک جبکہ بیشمار قلت خوراک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ناانصافی کیوں ؟ اللّٰہ نے اس طرح پلان تو نہیں کیا تھا۔ یا ایک شخص کھڑا ہوتا ہے ، پستول اٹھاتا ہے ، فائر کر کے خود کو ختم کردیتا ہے، جسے ہم خود کشی کہتے ہیں ، اسلام میں خودکشی تو حرام قرار دیا گیا ہے اللّٰہ کو ناپسند ہے۔ لیکن یہ ہورہا ہے۔ مختصراً اس دنیا میں بہت سے تکلیف ، پریشانی اور دکھوں کا تیسرا بڑا ماخذ قانون فطرت یا ان کی خلاف ورزی ہے۔
حل کیا ہے، تکالیف ، دکھوں کا کیسے تدارک کیا جایے؟ان سے کیسے نمٹا جائے ؟ جو تکلیف مکافات عمل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جس کا ہم خود زمہ دار ہیں، اس پر بات ہو چکی ہے۔ باقیوں کے حوالے سے ہمارے پاس تین راستے موجود ہیں ، ایک صبر یعنی خود کو رب کے رحم و کرم پر چھوڑ نا، ساتھ آزمائش کے پیچھے موجود حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑے بزرگ جو کاروبار سے وابستہ تھے ، واعظ و نصیحت میں مصروف تھے کہ ایک شخص آیا ، کان میں کہہ دیا کہ جو بحری بیڑے نے سامان لیکر آنا تھا وہ سمندری طوفان کے زد میں آکر بہہ گیا، بزرگ بولا " شکر الحمد اللہ" تھوڑی دیر بعد پھر وہی شخص نمودار ہوا اور سرگوشی کی ، جہاز سلامت ہے، ڈوپنے والا جہاز کسی اور کا تھا۔ بزرگ پھر سے بولا شکر الحمد اللہ، وہ شخص حیران و پریشاں ہوا ، واعظ کے بعد پوچھنے لگا! صاحب! ماجرا کیا ہے ؟جب جہاز کے غرق ہونے کی خبر لے کر آیا تب بھی اور اب بچنے کی خوشخبری لیکر آیا ہوں آپ نے " شکر بجا لایا ۔ بزرگ نے فرمایا ! برخوردار ! دونوں صورتوں میں اللّٰہ کی حکمت پوشیدہ تھی ، جس میں بھلائی اور خیر ہی خیر پنہان ہے۔
دعا ور صدقے کے بارے میں حدیث کا مفہوم ہے ، یہ دونوں سب بلاؤ یعنی موت کو بھی ٹال سکتے ہیں اور مومن کے پاس یہ دو بڑے ہتھیار ہیں۔ جو تکالیف، دکھ ہمارے حصے میں ہیں قدرت کی طرف سے ، دعا, صدقے اور صبر کی وجہ سے وہ ختم تو نہ ہو، لیکن ان کی وجہ سے تکلیف اور دکھوں کی شدت کم ضرور ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دعا، صدقہ اور صبر کی مثال گاڈی میں موجود شاک آبزرور Shock Absorber کی سی ہے، جو گاڈی کو پیش آنے والے جھٹکوں کو تو روک نہیں سکتا ہے ، لیکن اس جھٹکوں کی شدت کو کم ضرور کرتا ہے تاکہ گاڈی کو کم سے کم نقصان نہ پہنچ سکیے۔ والسلام