خواتین کی سیاست داری اور ہمارے معاشرتی روئیے ۔ تحریر ۔ کرن قاسم

خواتین کی سیاست داری اور ہمارے معاشرتی روئیے ۔


تحریر ۔ کرن قاسم
ترقی کی برق رفتاری  نے جہاں نت نئے اور ہوشربا ایجادات اور تحقیقات کی بدولت زندگی کےتمام شعبہ جات میں ہلچل مچارکھی ہے، وہاں اس کے براہ راست اور بالواسطہ اثرات انفرادی اور اجتماعی انسانی رویوں Human Behaviours) پر بھی گہرے چھاپ مرتب کئے ہوئے ہیں جن کا اظہار ہماری معاشرتی سطح پر ظہور پذیر تمام سرگرمیوں کے زریعے بھی ہوتا ہے۔ ہاں یہ ایک الگ سوال ہےکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں رویہ جاتی تغیر و تبدل اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفی یا مثبت خاصیت کا حامل ضرور ہوسکتی ہے۔ 

ظاہر ہے کسی بھی معاشرے کے طرز و تمدن، بودوباش اور انسانی رویہ و رجحانات پر ان کی مذہبی تعلیمات کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ مذہبی عقائد کا انسانی زندگی کے تمام پہلووٴں پر گہرے نقوش و اثرات مرتب ہوتے ہیں جوکہ معاشرتی گروہوں کے مختلف افراد و ارکان کے انفرادی اور اجتماعی افعال و اعمال کے زریعے نشر و تشریح ہوتے رہتے ہیں اور یہی وہ معیار ہوتے ہیں جن سے کسی فرد یا معاشرتی گروہ Social group کی تعلیم و تربیت کا معیار جانچا جاسکتا ہے۔ عقلاء و مدبرین کی یہ متفقہ آراء ہے کہ افراد معاشرتی اخلاقیات اور تربیت کے معیار کو واضح کرتے اشتہارات کے مانند ہوتے ہیں اور ان کے زریعے کسی بھی معاشرے کی علمیت اور تربیت کے بارے میں فی البدیہہ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی آج کل کے ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ کہلائے جانیوالے اس دور میں جہاں ہماری صفوں میں مختلف معاشرتی تضادات اور باہمی ترجیحات و رجحانات کے  تفریق و امتیاز کا عنصر حاوی ہے وہاں رجحانات اور رویوں کے سلسلے چند امور و معاملات میں کیا مغرب اور کیا مشرق، ہمارے بیچ متعدد مشترکات بھی پائے جاتے ہیں اور دنیا مختلف براعظموں ، ملکوں ، مذاہب ، رنگ ، نسل اور زبان کے فرق و اختلاف کے باوجود جس ایک رویہ یعنی مشترکہ رجحان پر سبھی متفق ہیں وہ ہے تمام شعبہ ہائے  زندگی میں، خواہ وہ میڈیا ہو، شو بز ہو، سرکاری محکمہ جات ہوں،تعلیمی ادارے ہوں یا پھر پرائیویٹ کمپنیاں، ہر جگہ مجموعی اعتبار سے عورت کے لئے کسی نہ کسی طرح دباو والے ماحول کا سامنا کرتے رہنا ہوتا ہے۔ دباو pressure کے ایسے ماحول کو تشکیل دینے میں خواتین جس محکمے یا شعبے میں کام کرتی ہیں وہاں کے باس یا اسکے ہم پیشہ مرد حضرات کا بنیادی کردار ہوتا ہے کیونکہ ان کا پہلا مشترکہ رویہ عورت کو متاثر کرنے اور اس کے قریب ہونے کی کوشش کرنے والا ہی ہوتا ہےـ عورت (ہمارے معاشرتی اصطلاح کے مطابق صنف نازک ) جوکہ فطری طور پہ صرف اور صرف عزت اور احساس تحفظ کا طلبگار ہوتی ہے، وہ مرد کے ہر رویے کو محسوس کر سکتی ہے۔ دراصل یہ احساس عورت کے اندر خود کو ہمیشہ دفاعی صورتحال اختیار کئے رکھنے پر مجبور کرتا ہے اور دفاعی انداز فکر کے اسی رویے کے باعث عورت کو اپنا کام بہتر انداز میں سر انجام دینے کے لئے درکار محنت کے علاوہ احساس تحفظ کو قائم اور محفوظ رکھنے کیلئے دوگنی محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ بعض تلخ معاشرتی حقائق، خواتین کو کسی حد تک  محدودیت اختیار کرنے اور حاشیائی فرد کے طور پر زندگی گزارنے پر امادہ یا مجبور کرنے کا بنیادی سبب اور موجب بن جاتے ہیں اور یہاں سے  شروع ہوتا ہے استحصال کا وہ مستور disguised دور جو  دراصل عورت کی زندگی کو دشوار تر بنا دیتا یے۔ ایسے ماحول میں وہ کم ظرف مردحضرات جو کہ عموما عورت کی قربت و اعتماد کے حصول کے لالچ میں اس کے ہمدرد بنے ہوتے ہیں ، عورت کی طرف سے مطلوبہ ردعمل ملنے میں ناکامی کا احساس ہوتے ہی اس کے بلاشرکت غیرے خود ساختہ دشمن بن جاتے ہیں پھر اسے ہر طرح سے ستایا جاتا ہے ـ اسکے باسز اور افسر اس سے دگنا کام لےکراسے بلاوجہ پریشان کرنے لگتے ہیں ـ اسکے کولیگز اسکے لئے قدم قدم پہ رکاوٹیں کھڑی کرنے لگ جاتے ہیں ـ نجی مردانہ محفلوں میں اسکی غیبتیں کرتے رہتےہیں ـ اس پہ بہتان باندھتے ہیں اور اسی طرح کی بہت سی دیگر ایسی باتیں جوکہ ایک عورت کی زندگی کی ہمواریت اور خوشگوار احساس کی راہ میں سخت مخل ثابت ہوجاتی ہیں کر گزرتے ہیں جس کا بنیادی مطمع نظر اس عورت کی کردار کشی کرنا ہوتا ہے ۔ 

قارئین کرام مندرجہ بالا سطور و نکات کے تحریر سے میری مراد معاشرے کے تمام مرد حضرات سے منسلک امور و جزئیات کو موردالزام ٹھہرا کر آڑے ہاتھوں لینا ہرگز نہیں کیونکہ میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہی کہ سارے ہی مرد یکساں عادات و اطوار کے حامل ہوتے ہیں ـ یہاں اس حقیقت کو تسلیم کرنا بھی میں بطور پیشہ صحافت کی ایک طالبہ اپنا اخلاقی اور پیشہ ورانہ فرض سمجھتی ہوں کہ ہمارے معاشرے کے اندر کثیر تعداد میں مرد بہت اچھے اور اعلی اخلاقی و عملی کردار اور خوبیوں سے مالامال اور مکمل متصف بھی ہوتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی مذہبی ، علمی اور اخلاقیاتی  تربیت اعلی پایہ کی ہوتی ہے اور یہ خوف خدا، اخلاقی شعور و ادراک سے مالامال بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عورت کن حالات میں باہر گھر سے باہر نکلتی ہے اور ایسی عورت کے ساتھ معاشرے کو کس پیرائے میں سلوک و برتاو روا رکھنا چاہیئے ۔ ان کا ضمیر اور ان کے اندر کی حقیقی مرادنگی ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ عورت کی عزت کریں اور معاشرہ میں ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ وہ عورت کے بارے رائے یا سوچ قائم کرنے سے پہلے یہ ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ جس طرح کچھ عورتیں بطور ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی سمیت دیگرخونی رشتوں کی ڈور میں پروئی ہوئی ہونے کے باعث ان کیلئے قابل احترام ہوتی ہیں بعینہ اسی طرح ہر دوسری عورت معاشرے کے کسی فرد کیلئے ایسی ہی محترم و مقدم ہے لہذا اسے احترام و عزت ہی دیا جانا چاہئے ۔

معاشرے میں اس طرح کے باوقار انداز فکر کے حامل لوگوں  کے رویوں کے ردعمل و مناسب ترین جواب کے طور پر عورت کی (اگر  وہ حیادار اور باوقار) فطری نظر اور خیال کو سمجھنے کی حس، مرد حضرات کی جانب سے مبنی بر احترام سلوک و برتاو کی لمس کو محسوس کرتے ہوئے نتیجہ کے طور پہ ایسے لوگوں پہ کسی حد تک بھروسہ کر نے لگتی ہے  تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کے ایسےجوابی سلوک و برتاو پر لوگ اپنی اپنی فکری اور اخلاقی تربیت کے حساب سے رائے زنی ( opinion making ) کرتے ہیں ، اور جس کا جتنا اور جیسا ظرف و تربیت  ہو وہ اس قدر اس معاملے کو معنویت دیتا ہے۔ اعلی ظرف کے حامل لوگ ایسی عورت کو قدرومنزلت دیتے ہیں جبکہ گھٹیا سوچوں کے حامل لوگ عورت کی ہر بات اور روپ پر خوب کہانیاں گھڑتے اور اچھالتے ہیں جوکہ انکی باطنی بدطنیتی کا برملا اظہار ہوتا ہے ویسے تو دنیا کے سبھی معاشروں کے اندر خواتین کو کسی نی کسی قسم  کے تیکھے سلوک کا سامنا ضرور رہتا ہے مگربد قسمتی سے اس قسم کے رویے دیگر براعظموں کے مقابلے  برصغیر کے تمام ممالک کے اکثریتی رویہ ھے اور پاکستان اور بالخصوص پسماندہ علاقوں میں ایسا کچھ زیادہ ہی ہوتا ھےاور زندگی کے ہر شعبے میں ہوتا ہے،تاہم سیاست کے میدان میں اسکا انداز تھوڑا سا مختلف ہےـ عورت کے بارے میں معاشرے کے تنگ نظر حلقوں کا یہ رویہ دراصل اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ عورت کو اس کا جائز مقام دینے کے عمل میں ہم اجتماعی کنجوسی کا شکار چلے آرہے ہیں۔ عورت کو جائز حق سے محروم رکھنے کے طے شدہ حربے استعمال کئے جاتے ہیں جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں غریب گھرانے کی عورت کا سیاست میں آنا اور رہنا ناممکن کام سمجھا جاتا ہے ـ دوسرے لفظوں میں غریب پس منظر کی  حامل خواتین کا میدان سیاست میں آجانا ایک معیوب عمل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ قیام پاکستان سے اب تک بطور عورت سیاست میں آنا اور رہنا صرف جاگیردار طبقہ اور بڑے سیاسی گھرانوں کی خواتین کے لئے ہی مخصوص رہا ہے اور خواتین کی شعبہ سیاست میں اجارہ داری صرف صاحب ثروت اور سونے کا چمچ منہ میں لیتے ہوئے پیدا ہونے والی اشرافیہ کی اولاد کی  ہی چلی آرہی ہے ۔ تاہم وقت کے اتار چڑھاو یا اتفاقات کے مرہون منت اگر کوئی باصلاحیت اور باہمت غریب لڑکی اس میدان میں آ بھی جائے تو اس کی حوصلہ افزائی بہت ہی کم کی جاتی ہے، سیاست کی دنیا کے مرد پوری جان لڑا دیتے ہیں کہ ایسی خاتوں ان کی ہی انگلی پکڑ کے چلے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اپنی ہی پارٹی کے مرد حضرات، پارٹی کے صحافی، پارٹی میں موجود سرمایہ دار خواتین قدم قدم پہ اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ اخبارات کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اس کی خبر نہ چھاپیں، اسکا ذکر نہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں اس قسم کی جراتمند اور حوصلہ مند عورت کی راہوں میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں جس کا مقصد ان کی حوصلہ شکنی کرنی ہوتی ہے اور بسا اوقات اسکی ہر منفرد محنت اور رجحان ساز کارکردگی کو اپنے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، اس کی محنت و کارکردگی کے بابت کوئی رپورٹ پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو برائے حوصلہ افزائی و پذیرائی نہیں پہنچائی جاتی ، یہیں پہ بس نہیں، خود اس کی پارٹی میں موجود دوسری خواتین کو اس کے مدمقابل یا اسے دبانے کے لئے ابھارا جاتا ہے ـ اس منظر کو اگر شاعرانہ انداز میں بیان کرنا ہو تو یہ شعر مرکزی خیال کا مکمل احاطہ کرتا محسوس ہوتا ہے ۔

 نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں ۔ 
چلی ہے رسم کہ کوِئی نہ سر اٹھا کے چلے .

قارئین کرام محولہ بالا سطور کے زریعےمرکزمیں مروج ہماری سیاسی منظر نامے کی عکاسی قدرے زیادہ ہورہی ہے لیکن جہاں تک گلگت بلتستان کی صورت حال ہے یہ مرکز سے قدرے نہیں کافی مختلف ہے کیونکہ اب تک کے سیاسی منظر نامے اور گردو پیش کی بازگشت کے احوال سے یوں عیاں ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے اندر پاکستان پیپلز پارٹی،  مسلم لیگ نون اور آپ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی پلیٹ فارم اب تک متوسط یا پھر غریب گھرانوں سےتعلق رکھتی خواتین کو سپورٹ کرتی اور موقع دیتی رہی ہے ۔ خواتین کی سیاست کو فروغ دینے اور فعال بنانے میں جن خواتین کی کوششوں کو داد تحسین دینے کی ضرورت ہے ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات سعدیہ دانش، خواتین ونگ کی صدر شرین فاطمہ، مسلم لیگ خواتین ونگ کی صدر ثوبیہ مقدم،  رانی عتیقہ عضنفر ،  آمنہ انصاری اور دیگر خواتین شامل ہیں جنہوں  نے بے حد محنت ، لگن اور مسلسل کوشش سے اپنے مقام بنائے ھیں اور اب انکی رہنمائی میں تمام سیاسی جماعتوں کے خواتین ونگ غریب عوام کے صفوں کے اندر سے باصلاحیت اور حوصلہ مند خواتین کو گاوں اور محلہ کی سطح پر منظم کر کے اہل خواتین کو آگے لانے کیلئے بھرپور محنت کر رہی ہیں جس سے خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق مثبت شروعات کے بارے میں مرکزی سیاسی جماعتوں کی سنجیدہ کوشش کا اظہار ہوتا ہے مگر تاہم اس حوالے سے جو بہتری آئی ہے اس پر اکتفا کرکے بیٹھ جانا مناسب نہیں بلکہ مسلسل محنت کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے سیاسی کردار کو ایک حقیقت کاروپ دیا جا سکے ۔

 گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور ۔
 چراغ راہ ہے یہ ،منزل نہیں ہے ۔

 میں دختر ارض گلگت بلتسان ہونے کی حثیت سے گلگت بلتستان کی تمام سیاسی خواتین کو جوکہ آج تک صرف مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر اسمبلی  پہنچتی رہی ہیں سے گزارش کروں گی کہ تمام منتخب خواتین ممبران پارٹی یا دیگر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے خواتین کی بہتری اور ترقی کو یقینی بنانا اپنا مشترکہ ایجنڈا اور ہدف رکھ لیں اور اپنی مشترکہ کوششوں کے زریعے تمام خواتین خصوصا ملازمت پیشہ خواتین working women  کے بنیادی حقوق کے حوالے سے مطلوبہ قانون سازی کو یقینی بنائیں ۔  موجودہ اسمبلی میں موجود خواتین ممبران میں سے ثوبیہ جبیں مقدم کے اندر مجھے سیاسی جراتمندی کی کرنیں چمکتی محسوس ہورہی ہیں۔ حالیہ دنوں وزیر صاحبہ کی جانب سے دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین کی بحالی کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں پر کھلے لفظوں تنقید اور ممکنہ ردعمل کے طور پر عوامی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنی وزارت تک کو قربان کرنے کا اعلان کر گزرنا بلاشبہ جہاں ان کی سیاسی جرات کا ثبوت ہے وہاں حکومت وقت کیلئے یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کیونکہ ملک کی  تعمیر و ترقی کیلئے قربانی دینے والے دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 2007 کے سروے کے مطابق بحالی کے عمل اور حکومتی ارادے پر سخت تشویش اور تحفظات رکھتے ہیں ۔ جہاں تک میری معلومات ہیں متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو واپڈا کی طرف سے یکطرفہ کئے گئے سروے جوکہ  2007 کو منعقد ہوئی ہے پر سخت ترین اعتراضات ہیں اور اس وجہ سے عوامی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ دیامر سے منتخب ممبران اسمبلی جوکہ تمام مرد حضرات ہیں اور صوبائی وزراء بھی ہیں مگر تاحال چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں تاہم ایسی صورتحال میں عوام کی تشویش کو محسوس کرنا اور عوامی امنگوں کے مطابق متاثرین کی آبادکاری کا مطالبہ کرنا  ثوبیہ جبیں مقدم کی سیاسی بصیرت اور متحرک سیاسی استعداد کا برملا اظہار ہے ۔

 متاترین ڈیم کے حق میں کھل کر آواز اٹھانے کی سبقت لیکر دیامر کی خاتون وزیر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مخصوص نشست کی سیاست سے آگے بڑھ کر عوامی بیلٹ باکس کے زریعے منعقد ہورہے انتخابات کے زریعے منتخب ہونے کی اہلیت کی حامل ہیں ۔ میں وزیر موصوف کی جانب سے عوامی امنگوں کیلئے بروقت توانا آواز اٹھانے پر سلام پیش کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ مخلصانہ صلاح دونگی کہ عجلت میں متاثرین کی بحالی کی کوشش ہرگز نہ کی جائے کیونکہ عجلت میں غیر مقبول حکومتی اقدامات کے سبب حالات خدانخواستہ کہیں دنگا فساد کے نذر ہو کر رہ نہ جائیں کیونکہ ایسا ہونا DBDP جیسے کثیر المنفعت قومی منصوبے کو متنازعہ یا تاخیر کا شکار کرجانے کا موجب بن سکتا ہے ۔ لہذا حالات و معاملات کو اس عوامی قبولیت کے بجائے ٹکراو کی نہج تک پہنچنے سے بچانے کیلئے حکومت 2007 اور 2016 کی سروے اور متاثرین کی فہرست اور تعداد میں موجود سقم کوفوری دور کرے اور تمام متاثرین کو اس خوش اسلوبی سے راضی کرنے کی حکمت عملی وضع کرلے کہ ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے قربانی دینے والوں کو اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ڈیم کی خاطر دی گئی اپنی یا اپنے آباو اجداد کی قربانی پر پیشمانی نہ ہو۔ یاد رہے  ثوبیہ مقدم کا دیامر ڈیم متاثرین کے حقوق کیلئے بلند کی گئی آواز کو محض کسی خاتون کی آواز سمجھ کر آسان نہ لیا جائے ۔ خیال رہے کہ تاریخ میں بعض قومی معاملات میں ماں بہنوں کی پکار سے اٹھنے والی تحریکیں بڑی انقلابی نتائج کا حامل ثابت ہوتی چلی آئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post