خوش بخت کی پراسرار گمشدکی اور ریاست کی خاموشی
تحریر:صاحب مدد شاہ
کراچی میں خوش بخت کی پراسرار گمشدگی اور راولپنڈی میں اعجاز علی کی پراسرار موت نے گلگت بلتستان کے باسیوں کو پاکستان میں غیر محفوظ کردیا۔ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے گلگت بلتستان کے باسیوں کے ساتھ ایسے سینکڑوں واقعات پاکستان کے مختلف شہروں میں رونما ہوئے ہیں۔ آج تک ریاست نے کسی کو بھی صیح سلامت بازیاب نہیں کر سکی، کبھی مسخ شدہ لاشیں ملی تو کبھی کھبی تشدد زدہ اجسام۔ دل خون کے آنسوں روتا ہے میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں!
آج چھٹا دن ہے ضلع غذر، یاسین سے تعلق رکھنے والی اسسٹنٹ نرس جو انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار گھر سے نکلی اور تا حال لاپتہ ہے۔ کراچی پولیس نے حسب روایت ایف۔آئی۔آر درج کر کے متاثرہ خاندان کو دو دن کے اندر اندر خوش بخت کی بازیابی کی یقین دھانی کرائی تھی ابھی تک پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
ریاست مدینہ کے علمبردار جناب عمران خان آپنے متعدد تقریروں میں ریاست کو ماں کا درجہ دیکر فرماتے تھے جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو اس کا زمہ دار حکمران وقت ہوتا ہے۔ جناب اب وقت ہے اس مشکل گھڑی میں متاثرہ خاندان کا سہارا بن کر ریاست مدینہ کا علمبردار ہونے کا ثبوت پیش کریں۔
وقت کے ظالم حکمرانو سنو سیاچین کے پہاڈوں سے لیکر کراچی کے تنگ گلیوں تک ہمارا خون بہا ہے، ہماری ماؤں نے اپنے لخت جگر کو قربان کیا ہے, ہمارے بھائی اپنے جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور آج ان بہادر بھائیوں کی بہنیں غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں حصول روزگار اور علم کی خاطر ہمارے بہنیں مقیم ہیں اس معاملے کو لے کر سب پریشان اور خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
حکومت وقت سے گزارش ہے اس معاملے کو سنجیدگی سے لےکر ہماری بہن خوش بخت کو صیح سلامت بازیاب کرانے کی بھرپور کوشش کریں۔ میں اپنے ان تمام دوستوں اور بھائیوں کا تہ دل سے مشکور ہوں جو اب تک ہماری بہن کی بازیابی کے لیے انتھک کوششوں کرتے ہیں اور متاثرہ خاندان کا سہارا بنے ہوے ہیں۔ خدا آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے!
