خواتین کی ترقی
تحریر: کرن قاسم
دوراب بدل رہا ہے اورسوچنے کا انداز بھی، ہم یہ جان چکے ہیں کہ اگر ہمیں ترقی کرنی ہے توفرسودہ روایات سے نکل کر ہمیں وہ سب کرنا ہوگا جو ہماری زیست کوآسان بنائے اور ہمیں ترقی کی راہ پرگامزن کرسکے۔ آج سے کئی دہائیاں قبل جب ہمیں کوئی عورت ملازمت کرتے دکھائی دیتی تو ہمیں بہت حیرت ہوتی تھی۔ اس وقت ہمارے نزدیک عورت یا توٹیچربن سکتی تھی یا نرس، یا پھرڈاکٹر لیکن اس سے آگے کا ہم سوچنے سے پہلے ہی گھبرا جاتے تھے۔
مغرب میں توعورتوں نے ہر میدان میں قدم جمالئے ہیں لیکن مشرق میں آج بھی خواتین کے لئے مسائل موجود ہیں گوکہ ہمارے ہاں اب عورتیں کون سا ایسا شعبہ ہوگا جس میں کام نہیں کر رہیں لیکن قابل ستائش ہیں وہ خواتین اور ان کے گھرانے جنھوں نے آج سے پانچ سے چھ دہائیاں قبل اپنی بیٹیوں کو نہ صرف ہوا بازبنایا بلکہ انجینئر بھی، سائنسدان بنایا اور ٹی وی کا پروڈیوسر بھی۔ یقینا اس دور میں بھی ان خواتین کو مسائل کا سامنا رہا ہوگا لیکن اپنی ثابت قدمی سے انھوں نے خودکونہ صرف منوایا بلکہ اوروں کے لئے مثال بھی بن گئیں۔
آج کی خواتین افواج میں شمولیت کے ساتھ ساتھ صحافت، سیاست، عدل، طب، سائنس، ٹیکنالوجی کے علاوہ بھی دیگرشعبوں میں بھی اپنا آپ منواتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات میں اب لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ تعداد میں دکھائی دیتی ہیں اورقابلیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تواس میں بھی ہر سال خواتین کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ لیکن اس تمام ترکامیابیوں کے ساتھ ساتھ اب بھی ہمارے ملک میں کام کرنے والی خواتین کو مسائل کا سامنا ہے۔ جی ہاں آج بھی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین مردوں کے ساتھ ملکی تعمیر و ترقی کےلئے اہم اور مثبت کردار ادا کرنے کا عزم لے کر اپنے گھروں سے باہر نکلتی ہیں ،جن میں بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں جو گھریلو مجبوریوں اور مسائل کے باعث گھر سے قدم گھر سے باہر نکالنے پر مجبور ہوتی ہیں لیکن اس معاشرے میں انسانوں کے روپ میں ایسے بے شمار درندے بھی موجود ہیں جو ان کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اپنے مذموم مقاسد حاصل کرنے کی گھِناﺅنی کوشش کرتے ہیں ،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ درندے جاہل ،ان پڑھ اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے افراد نہیں ہیں جو معاشرتی اقدارو روایات اور اخلاقیات سے بالکل عاری ہیں بلکہ یہ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ اور اعلی تعلیم یافتہ افراد ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گھر اور تعلیمی اداروں میں اِنہیں اخلاقیات کی ویسی تعلیم نہیں دی جا رہی ،جیسی آج سے چند برس یا دہائیاں قبل دی جاتی تھی۔آپ تحقیق کر کے دیکھ لیں اُن دنوں مردخواتین کو خاص عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے،آج بھی اس حوالے سے آوے کا آوا نہیں بگڑا بلکہ اعلیٰ و ارفع کردار والدین کی اولاد آج بھی روشن مینار بن کر نہ صرف اپنے ماں باپ کا نام روشن کر رہے ہیں بلکہ یہ دین اسلام کی اعلیٰ روایات اور اخلاقیات کا عملی نمونہ بھی بنا دکھائی دیتے ہیں۔رہی بات خواتین کو اپنے لئے کھلونا بنانے اوراُنہیں مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ان کے خلاف باشعور عوام اور انسانی و خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں گاہے بگاہے آواز بلند کرتی رہتی ہیں،جس کی مثال کچھ یوں پیش کی جا سکتی ہے، انسانی حقوق اور خواتین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف باقاعدہ قانون سازی کے لیے لابنگ شروع کی اور ان کیجدوجہد کے نتیجے میںیہ قانون بن تو چکا ہے لیکن اب اس پر پوری طرح عمل درآمد کرانا حکومت اور سول سوسائٹی کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔قانون سازی عورتوں کے مسائل کے حل کا صرف ایک حصہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی رویوں کی تبدیلی اور اقتصادی منصوبہ سازی اور میڈیا میں عورتوں کے کردار کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے اس پر بھی غور کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم ایک طبقاتی نظام پر مبنی معاشرے میں رہتے ہیں ،جہاں عام لوگوں کو خواہ مرد ہو یا عورت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اس لیے عورتوں کے حقوق کی بات کرنے کے ساتھ ہمیں معاشرے کی مجموعی ترقی کی بات کرنا ہوگی۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ معاشرتی رویوں کی وجہ سے عورت کو مرد کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ۔ جب کوئی لڑکی ملازمت کرنے نکلتی ہے تو سب سے پہلا مسئلہ گھر والوں کو راضی کرنا ہوتا ہے، گھر والوں کی عام طور پر یہی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کی جلد سے جلد شادی ہوجائے ، بعض صورتوں میں گھر والے تو نوکری کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن جب رشتہ آتا ہے تو سسرال والے یہ شرط رکھ دیتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کو ملازمت چھوڑنا ہوگی۔
ملازمت پیشہ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری کوئی بھی حکومت ابھی تک عوام کے لیے ایک معیاری پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بناسکی ۔ مرد بھی بسوں میں لٹک اور چھت پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور عورتوں کے لیے تو مشکل سے دو تین سیٹیں ہوتی ہیں۔ ڈرائیور گھٹیا گانے بلند آواز میں لگا دیتا ہے، کنڈیکٹر بھی کسی نہ کسی طرح ہراساں کرتا ہے۔ بعض مرد مسافر بھی عورتوں والے حصے سے چڑھنے یا اُترنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس ساری صورتحال سے نمٹ کر جب وہ دفتر پہنچتی ہے تو مرد کولیگز ایکسرے مشین کی طرح اپنی آنکھوں سے کام لیتے ہیں۔ کوئی ذو معنی جملے بولتا ہے، کوئی فضول لطیفے سنانا چاہتا ہے، بہرحال اب اچھی خبر یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ملازمت کرنے کی جگہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف قانون بن گیا ہےاس پر عمل درامد کرنے لئے ہر ادارے کو ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دینا ہوگی جو اس ایکٹ کے تحت شکایات کیانکوائری کرے گی ، یہ کمیٹی تین اراکین پر مشتمل ہو جن میں سے کم ازکم ایک رکن عورت ہوگی۔اس حوالے سے ہم نے ان خواتین سے جو برسوں سے ملازمت پیشہ ہیں یا وہ جنھوں نے حال ہی میں عملی زندگی میں قدم رکھا کے سامنے کچھ سوالات رکھے کہ وہ ملازمت کرتے ہوئے کن کن مشکلات کا شکار ہیں؟ انھیں کیا چیلنجزدرپیش رہے؟ وہ کون لوگ ہیں یا طبقہ ہے